ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ایک مشہورکہاوت ہے کہ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ تو موجودہ ہندوستان کے سیاسی منظرنامے پر یہ کہاوت بخوبی صادق آتی ہے۔ آج جمہوری اقدار کی پامالی اورجمہوری نظام کو یرغمال بنا لینا عام بات ہوگئی ہے۔ ایک خاص کمیونٹی کی ایکتا و اتحاد کے نام پر ملک بھر میں انتشار وخلفشار کو ہوا دی جارہی ہے۔ پہلے غیرمہذب اور غیرتعلیم یافتہ افراد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے تھے۔ لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ اب مہذب اور تعلیم یافتہ افراد کے سر مجرمانہ سرگرمیاں اَنجام دینے کا الزام لگ رہا ہے۔ کل جس آئین کے بل بوتے پر ہرطرح کے شر وفساد کی سرکوبی کی جاتی تھی آج اُسی آئین کی آڑ میں بلاخوف وخطر غیرآئینی اقدامات روا سمجھے جارہے ہیں۔ مدارس اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بلڈوزرسسٹم پر کیے گئے عدالت عظمیٰ کے اہم فیصلوں سے مسلم کمیونٹی کے لوگ کچھ حد تک پُراَمید لگ رہےتھے کہ اب صاحبانِ اقتدار اور اُن کے درمیان قربتیں بڑھیں گی اور پُرانے گلے شکوے دور ہوں گے۔ لیکن مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور ضمنی انتخابات میں صاحبانِ اقتدار کے طرزِ عمل نے ایک بار پھر اُن کی اُمیدوں پرپانی پھیر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صاحبانِ اقتدار اَپنی عوامی خدمات وحکومتی کارنامے کو اِنتخاب کا موضوع بناتے اور اپنی کارکردگیوں کو گنواتے۔ مگرہربار کی طرح اِس بار بھی محض جذباتی اورکمیونل نعروں (’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ اور’’ ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘) کے سہارے انتخابی میدان میں زور آزمائی کی گئی۔ ایک طرح سے یہ سیاسی کمزوری بھی ہے اور ملک ومعاشرت کی تعمیر وترقی میں ناکام ہونے کی دلیل بھی۔ پھر اِسی پر بس نہیں ہوا۔ بلکہ جھارکھنڈ میں بنگلہ دیشیوں کی آمدوسکونت کا خوف دلاکر اکثریتی طبقہ کو پولرائز کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں، جب کہ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ غیرملکیوں کی آمد وسکونت حکومت کا مسئلہ ہے عام شہریوں کا نہیں۔ حیرت درحیرت تو اِس پر ہے کہ مسلسل تیسری بار وزارت ِعظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد بھی صاحبانِ اقتدار اگرنفرت انگیز، اِنسانیت سوز اور جمہوریت کش نعروں کے محتاج ہیں، تو اُن کی عوامی خدمات وحکومتی کارنامے کہاں ہیں؟آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی!
مہاراشٹر وجھارکھنڈ انتخاب کےنتائج جس اعتبار سے آئے ہیں، اُس سے یہی لگتا ہے کہ یہ ہریانہ اور جموں وکشمیر کا دوسرا حصہ ہے۔ کیوں کہ جس طرح ہریانہ اور جموں وکشمیر کے نتائج سے متعلق ایگزٹ اورپیش گوئیاں ہوئی تھیں، بعینہ مہاراشٹر اورجھارکھنڈ کے لیے بھی ہوئیں۔ لیکن نتیجہ دیکھا جائے تومہاراشٹر کی جیت سے ہریانہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور جھارکھنڈ کی جیت سے جموں وکشمیر کی۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ مہاراشٹر کی جیت محض جناب وزیراعظم کی کرشماتی شخصیت کا مرہون منت ہے۔ اگر یہ سچ مان لیا جائے تو جھارکھنڈ میں اُن کی کرشمائی شخصیت کہاں تھی؟ ذرائع کی مانے تو پچھلے انتخاب کے بالمقابل اِس بار جھارکھنڈ میں این ڈی اے کوصرف ہزیمت ہی نہیں اٹھانی پڑی ہے بلکہ اُن کی سیٹیں بھی کم ہوئی ہیں۔ لہٰذا مہاراشٹر کی جیت بالکل اُسی طرز عمل کا نتیجہ ہےجو کہ ہریانہ میں اختیار کیا گیا تھا۔ مزید پیسوں کی ریل پیل اور آزاد اُمید کی خرید وفروخت کا بھی اُس میں اہم کردار رہا۔ رہی سہی کسر اپوزیشن جماعتوں کی آپسی خلش، اُن کی خوش فہمی اور سستی و غفلت، نیز مسلم رہنماؤں کی بیان بازی نے پوری کردی۔
ضمنی انتخاب کی بات کی جائے تو پنجاب اور بنگال کے اندر اِین ڈی اے جیت کے لیے ترس گئی، البتہ! بہار میں کچھ نتیش کمار کے باعث تو بہت کچھ پرشانت کشور کی بدولت راحت مل گئی۔ رہ گئی اُترپردیش کی بات، تو یہ سارا ملک جانتا ہے کہ اَیڈمنسٹریشن نے کس طرح قوت کا استعمال کیا۔ مسلم، گوجر اور یادو برادریوں کو کس انداز سےدھمکایا اور اُنھیں ووٹ کرنے سے روکا بھی۔ عورتوں کے ساتھ پولیس نے جس غیراِنسانی رویے کا مظاہرہ کیا اُس سے ہرکوئی دنگ ہے۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ ملکی اور ریاستی سطح پر عورتوں اور اُن کے حقوق بحق حکومت محفوظ ہیں اور دوسری طرف اُنھیں عورتوں کو رائے دہی جیسے جمہوری حق سے محروم کردینے کی ساری کوششیں کی جاتی ہیں۔ جب سلامتی دستہ ہی شہریوں پر پستول تانے کھڑا رہےگا توایک عام شہری اپنے جمہوری حق کا اِستعمال کیسے کرےگا۔ ملک ومعاشرے کی تعمیر وترقی میں حصہ لینے کی ہمت و حوصلہ اُن کے اندر کہاں سے پیدا ہوگا اور اَمن وآشتی کے خواب کو شرمندۂ تعبیرکرنے کے لیے حکومت کے ساتھ وہ کس طرح کھڑارہےگا اور پھرحکومت کی جیت کو جمہوری جیت کاجامہ کیسے پہنایا جائےگا؟
علاوہ ازیں سنبھل کی شاہی مسجد سروے معاملے میں ارکانِ عدلیہ نےجس برق رفتاری سے اپنی سرگرمی دکھائی ہے اور جس جلد بازی میں فیصلے صادر کیے ہیں، وہ ارکانِ عدلیہ کے حق میں قابل تعریف اور سودمند قدم ثابت ہونے کےبجائے، اُس کی جگ ہنسائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ کیوں کہ جواَرکانِ عدلیہ معمولی سے معمولی مقدمے کو بھی قبول وردّ کرنے میں مہینوں لگا دیتے ہیں اُنھوں نے ایک غیرمعمولی مقدے کو آنِ واحد میں قبول بھی کرلیا، فریقین کی باتیں بھی سن لیں اور سروے کا حکم بھی دے ڈالا، اور پھر سروے ٹیم بھی اِس قدر چاک وچوبند نکلے کہ اِدھر فیصلہ آیا اوراُدھر سروے کرنے پہنچ گئی۔ جب کہ تجربات شاہد ہیں کہ آج بھی مختلف مقدمے عدلیہ کے سردخانے میں پڑے دم توڑ رہے ہیں اور بےقصورافراد یا تو سلاخوں کے پیچھے رہنے پر مجبورہیں یا پھر انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں، لیکن اُن پر کسی کی توجہ نہیں۔
یہ تمام باتیں نہ صرف باشندگانِ ہند کےمفاد کے خلاف ہیں، بلکہ مرکزی حکومت کے اصل مقاصد واہداف کی برآری میں بھی سخت مانع ہیں۔ کیوں کہ اِنہی سانحات کے باعث آج معاشرت وسیاست انتشار وفساد کا شکار ہیں۔ گنگا-جمنی تہذیب وثقافت اور باہمی اِتحاد واتفاق کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپا رہا ہے۔ ترقیات وایجادات کے راستےمسدود ہیں۔ تعلیم وتعلّم کا معیار گھٹ گیا ہے اور جہالت و نفرت کا گراف بڑھ گیا ہے۔ داخلی اور خارجی سطح پرغیرمعمولی مشکلات درپیش ہیں۔ ملک کاوقار داؤ پر لگا ہوا ہے اور بین الاقوامی شبیہ بگڑتی جارہی ہے۔ تجارت ومعیشت چرمراکر رہ گئی۔ بھکمری اور بےروزگاری نے جینا محال کررکھا ہے۔ نوجوان بےراہ روی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے نرغے میں پھنستے جارہے ہیں۔ تمام تروسائل اورذرائع کے ہوتے ہوئے بھی ناکامی و نامرادی ہی ہاتھ آرہی ہے اور تمام تر محنتوں اور مشقتوں کے باوجود مقاصد کی حصولیابی نہیں ہو پارہی ہے۔ کیا مرکزی حکومت یہ چاہتی ہے کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘‘ کا جنازہ نکل جائے اور اُس کا خواب محض خواب ہی رہ جائے اور شرمندۂ تعبیر نہ ہونے پائے؟ ہمارے خیال سے وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتی کہ اُس کے خوابوں کا شیش محل تیار ہونے سے پہلے ہی چکناچورہوجائے۔
چناں چہ اگرایسا ہی ہے جیسا کہ ہم گمان کررہے ہیں تومرکزی حکومت پرلازم ہے کہ وہ جذباتی اور کمیونل نعروں سے بہرحال گریز کرے، تاکہ اُس کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس اورسب کا وشواس‘‘ واقعی پائیدار اور مضبوط ہو، اوراُسے ہر طبقات کا اعتماد بھی حاصل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہرطرح کے چھوٹے بڑے غیرجمہوری واقعات پربھی غیرمتعصبانہ رویہ اختیار کرے اور اَیسے تمام شرپسند عناصر کے خلاف نتیجہ خیز ایکشن لے جوملک ومعاشرت کی تعمیرو ترقی کی راہ میں روڑا اَٹکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بالخصوص اپنے آس پاس کے دشمن نما دوستوں پر نظر رکھے کہ کہیں یہ لوگ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے سبب کوئی ایسی سچویشن نہ پیدا کردیں جوحکومت ہند اور باشندگانِ ہند دونوں کےلیے مضراور نقصان دہ ہو۔
