• منگل. اگست 19th, 2025

ٹرمپ کی جیت: خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں

Byhindustannewz.in

نومبر 12, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن


امریکی سیاسی بساط اُلٹ چکی ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ دوسری بارسینتالیسویں صدرکے طورپر منتخب ہوچکے ہیں۔ ویسے نومنتخب امریکی صدر کی بات کی جائے تواُنھوں نے چار سال پہلے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست تسلیم کرنے سے غیراَخلاقی طورپراِنکار کر دیا تھا۔ نیزجارحانہ قدم اٹھانے اورکیپیٹل ہلزمیں اپنے لوگوں اُکسانے کا سنگین الزام بھی اُن پر لگا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مسٹرٹرمپ سنگین جرائم میں سزا یافتہ بھی تھے۔ مزید یہ کہ رائے دہندگان کی نظرمیں مسٹرٹرمپ ایک ناپسندیدہ شخصیت کے مالک تھے جس کی پاداش میں انتخاب کے دوران اُن پردوبارقاتلانہ حملہ تک ہوا تھا، اِس کے باوجود اُنھیں امریکی صدر منتخب ہوجانا بڑا ہی حیرت انگیز ہے۔ لیکن چوں کہ مسٹر ٹرمپ جیت چکے ہیں اوریہی حقیقت ہے، جسے جھٹلایا ممکن نہیں۔ دوسری طرف بطورِامریکی صدرمسٹرٹرمپ کی جیت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ جس تہذیب وثقافت اورسیاسی ایوان میں حقوق نسواں پر لچھے دارتقریریں ہوتی ہیں اورمردوں کی طرح نسواں کوبھی زندگی کے تمام شعبوں میں مساوی مقام دینے پر سارا زُور صرف کیا جاتا ہے آج اُسی تہذیب وثقافت اوراُسی سیاسی میدان میں ایک خاتون کو منصب صدارت تک پہنچنے سے ایک بار پھرروک دیا گیا۔ اِس سے پہلے۲۰۱۶ء میں بھی امریکی رائے دہندگان نے ایک خاتون صدارتی اُمیدوارمسزہیلری کلنٹن کو منصب صدارت تک رسائی حاصل کرنے نہیں دی تھی اوراُسے بمقابلہ ٹرمپ ہی شکست سے دوچارہونا پڑا تھا۔ پھر دورانِ انتخاب مسٹر ٹرمپ نے اپنی سیاسی حریف مسزکملا ہیرس پرجس قدرتوہین آمیزاورنسل پرستانہ فقرے کسے، صنفی منافرت کا مظاہرہ کیا اورتفریق کے واضح اشارے دیے اُس کے بموجب تواُنھیں اقتدار میں نہیں ہونا چاہیے لیکن اِس کے باوجود اگروہ صدر منتخب ہوئے ہیں، تو اِس کا واضح مطلب ہے کہ حقوق نسواں سے متعلق مغربی باشندوں اور دانشوروں کا نظریہ قولاً خوشنما اورعملاً انتہائی پست اورسخت مکروہ ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حقوق نسواں سے متعلق مغربی نظریات ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اوردکھانے کے اور‘‘ کی مانند ہیں۔ نیزیہ انتخاب محض نسواں سے متعلق توہین آمیزجملوں کے لیے یاد نہیں کیا جائےگا۔ بلکہ آنے والے دنوں میں اِس بات کے لیے بھی یاد کیا جائےگا کہ خود کوغیرمعمولی تعلیم وترقی یافتہ باورکرانے والے امریکہ نے ایک ایسے شخص کو اَپنا قائد منتخب کیا جوکبرونخوت، سخت وسست زبان، جارح اوراِنتقامی جذبے کا پرستاروعادی ہے ۔
دوسری طرف اِن تمام ناقابل قبول ومخرب اخلاق بیانات اورجارحانہ اقدام کے باوجود مسٹرٹرمپ کے صدرمنتخب ہوہے ہیں تواُس میں خوشنما اوردلفریب وعدوں کا بڑاعمل دخل ہے۔ مسٹرٹرمپ کے انتخابی منشور سے واضح ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اُن چیزوں پربطورخاص فوکس کیا جو عوام وخواص اور روزمرہ کی زندگی سے قریب تر ہوتی ہیں اورجن کے بغیر ایک عام سے عام انسان کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔ مثال کے طورپراُنھوں نے اَشیائے خوردنی کی قیمتوں کے اضافے پراپنی تشویش کا اظہارکیا۔ امریکی جرائم سے متعلق واضح کیا کہ اُن کے اصل اسباب وہ لوگ ہیں جواپنے وطن چھوڑکرامریکہ میں آبستے ہیں، لہٰذا اِس سلسلے میں خاطرخواہ قانونی قدم اُٹھایا جائےگا اوراَیسے لوگوں کو ملک بدر کیا جائےگا۔ اِسی طرح سابق صدر جوبائیڈن کے دورِ صدارت میں رُوزگار اورمعیشت کے جومسائل اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اُن کے حل کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ دیہی علاقوں میں رہنےوالے سفید فامز اورکم تعلیم یافتگان جورُوزگاراورمعیشت کی تباہی وگرانی کے سبب کافی مضمحل وپریشان نظرآرہے تھے، مسٹرٹرمپ کے وعدے کی شکل میں اُنھیں اُمید کی ایک نئی کرن مل گئی اوریوں دیہی رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد نے اُن کے لیے وہائٹ ہاؤس کا راستہ صاف کردیا۔ مسٹر ٹرمپ کے انتخابی نعروں میں ’ ’امریکہ سب سے پہلے‘‘بھی ایک اہم نعرہ تھا جس نے اصلی اورحقیقی حق رائے دہندگان کوکافی متأثر کیا۔ مزید برآں فلسطین اورخطے میں امن وآشتی کی بحالی کے نام پرامریکی مسلمانوں نے بھی مسٹر ٹرمپ کے حق میں اپنا حق رائے دہی کا استعمال کردیا کہ وہ بہرصورت نئی جنگیں نہیں چاہتے اورپُرانی جنگوں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اِس عزم و ارادے کا اظہارواعادہ اُنھوں نے صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد بھی کیا کہ ہم مشرق وسطیٰ کو حقیقی اور پائیداراَمن کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اوراِس سلسلے میں ہم یقینی طورپر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے، تاکہ دوبارہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسٹرٹرمپ امریکی رائے دہندگان سے کیے گئے اپنے وعدوں کو کیا واقعی پورا کرپائیں گے؟ فلسطینی رہنماؤں کے بقول: کیا وہ سچ میں بحیثیت امریکی صدرغزہ جنگ کو رُوک پائیں گے اورکیا وہ صیہونی ریاست کی اندھی حمایت ختم کرپائیں گے؟ کیوں کہ موجودہ جنگ اوراُس کی اندھی حمایت محض خطے کے امن وآشتی کے لیے خطرناک نہیں ہے، بلکہ فلسطینیوں کے مستقبل کے لیے بھی انتہائی سوہانِ روح ہے، لہٰذا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائےگا کہ نومنتخب صدراِس سلسلے میں کیا مناسب قدم اٹھاتے ہیں۔
ایک طرف نومنتخب امریکی صدر کے اعلانات اورعزم وارادے کو سامنے رکھیے اور دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں ہندوستانی سیاست دانوں کی طرف سے انتخابی اعلانات اورعزم وارادے کو سامنے رکھیے تو واضح طورپربہت کچھ سمجھ میں آجائےگا کہ جس طرح ہندوستان کے اندربکثرت روزگاروملازمت دینے، روزمرہ مستعمل اشیا کی قیمتوں پر قابو پانے، ہرایک شہری کو پندرہ لاکھ روپے دینے، کالا دھن کی واپسی اور دراندازوں کو ملک بدر کرنے جیسے مدعوں پراِنتخاب لڑاگیا اوربڑی آسانی سے جیت بھی لیا گیا تھا۔ لیکن انتخاب جیت لینے کے بعد کیا ہوا؟ اُس سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں۔انتخاب میں کیے گئے وعدے وارادے پورے تو نہیں ہوئے، البتہ! بےروزگاری ومعیشت کا بحران مزید شدت اختیار کرگیا۔ تقسیم درتقسیم کی سیاست چل پڑی۔ اپوزیشن کو اِعتماد میں لینے اور ملکی ومعاشرتی ترقیات کے سلسلے میں قدم بڑھانے کی بجائے انتقامانہ رویہ کو مہمیز کیا گیا۔ یہاں تک کہ مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے نہ صرف اُنھیں حکومتی مناصب سے برطرف کیا گیا۔ بلکہ اُن کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ دستورہند کے مطابق قائم ریاستی حکومتوں کوبھی نہیں بخشا گیا اور تمام تر قانونی و اخلاقی اُصولوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی خرید وفروخت کی گئی۔ اُخوت ومروت سے لبریز ماحول کو نفرت وتعصب کے سپردکردیا گیا۔ سیاسی مفاد کے حصول کی خاطر مذہبی جذبات سے کھیلواڑ کیا گیا، اِنسانی لاشوں کا زینہ بنایا گیا اورایوان سیاست پرقبضہ جمایا گیا۔ یہی کچھ حال ہمیں امریکی سیاست کا بھی ہوتا نظرآرہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ نومنتخب صدرکی طرف سے مستقبل میں کچھ ایسےاقدامات کیے جائیں، جن کے سبب تقسیم کی سیاست کو تقویت ملے اورنفرت وتعصب کا ماحول گرم ہوجائے۔ اپوزیشن نظریات کے حامل ملازمین کی برطرفی عمل میں آئے، یا پھر اُنھیں حکومت کا وفادار بنے رہنے پربہرصورت مجبور کیا جائے، جیساکہ اپوزیشن کوبھی اِس بات کاخوف ستارہاہے کہ مسٹر ٹرمپ عدلیہ اور دیگرمقننہ شعبوں کوبطور سیاسی ہتھیاراِستعمال کرسکتے ہیں۔ مزید اِس طرح کے خدشات بھی سراُٹھائے ہوئے ہیں کہ موافقین ومخالفین کے درمیان نسلی تفریق، صنفی مسائل، بچوں کو کیا اور کیسے پڑھایا جائے اورتولیدی حقوق جیسے مسائل پرمزید تقسیم کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ نیزآمرانہ نظام کو فروغ دیا جاسکتا ہے جو کسی بھی جمہوری ملک کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ ہے، جس کا تجربہ ہم ہندوستانیوں سے زیادہ اور کسے ہوسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں نومنتخب امریکی صدر بہت سارے سرکاری ونیم سرکاری پروجیکٹس کا اعلان بھی کرسکتے ہیں، کیوں کہ مسٹر ٹرمپ آج کے ہندوستانی طرزِسیاست سے کچھ حد تک ہی سہی لیکن متأثرضرورہیں، جس کا اظہار اُن کے انتخابی منشوراوردورانِ اِنتخاب اپنائے گئے اُن کےطرز عمل سے بخوبی ہوتا ہے۔
بہرحال جوشخص جیتنے سے پہلے ہی خاتون حریف کے لیے جارحانہ، توہین آمیزاورسخت وسست زبان استعمال کرسکتا ہے، دوسرے ممالک سے آنے اور امریکہ میں بودوباش اختیار کرنے والے کو ’’کچڑے کا ڈبہ‘‘ کہہ سکتا ہے اوراپنے مخالفوں وحریفوں کو ’’اندرونی دشمن‘‘ قرار دے سکتا ہے وہ جیتنے کے بعد کس حد تک جاسکتا ہے؟ یہ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے، لہٰذا فلسطین وخطے میں جنگ بندی اوراَمن وآشتی کی بحالی، روزگارکے مواقع وفراہمی، معاشی واقتصادی انقلاب، جمہوری نظام وقانون کا منصفانہ نفاذ اورسیاہ وسفید فامز کے درمیان اتحادواتفاق سے متعلق اُمید وتوقع رکھنا بُرا نہیں ہے، لیکن جہاں تک یقین ِ واقعی اوراعتمادِ کامل کا سوال ہے تویہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے