• منگل. اگست 19th, 2025

آخربہرائچ میں شرپسندکامیاب ہوہی گئے!

Byhindustannewz.in

اکتوبر 16, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن


ہندوستان میں رونما ہوئے فسادات پرایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام ترفسادات کسی نہ کسی مفاد کے تحت کرائے گئے۔ اُنھیں یا تو مذہبی رہنماؤں نے کرایا، یا پھر سیاسی رہنماؤں نے، اور اُن کے آلۂ کار بنتے ہیں اکثریت واقلیت سے وابستہ عام افراد۔ ۲۰۲۲ء کی بات ہے کہ ایودھیا میں ایسے ہی دنگا اورفساد کرانے کی سازش کی گئی تھی۔ جہاں تقریباً آٹھ ہندوافراد جومسلم لباس پہن رکھے تھے۔ موٹرسائیکل پر سوار تھے۔ ہاتھوں میں گوشت کا ٹکڑا اورقابل اعتراض پرچے لیے ہوئے تھے، جسے اُنھوں نے ایودھیا میں کشمیری محلہ، ٹاٹ شاہ مسجد، عیدگاہ سول لائن مسجد وغیرہ جیسے مقامات پر پھینکا اورفرارہوگئے۔ ایسا کرنے کے پیچھے اُن کا یہ مقصد تھا کہ ایودھیا میں اقلیت واکثریت کے درمیان فساد پھوٹ پڑے اوراَیودھیا نگری جل کر خاکستر ہوجائے۔ لیکن خیر یہ ہوا کہ پولیس کی بروقت چوکسی نے اِس ناپاک سازش کو ناکام بنا دیا۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق جالی دار ٹوپی اور کُرتے میں ملبوس مسلمان نہیں، بلکہ شرپسند عناصر مہیش کمار مشرا، پرتیوس سریواتسو، نتن کمار، دیپک کمارگور، برجیس پانڈے، شتروگھن پرجاپتی، ویمل پانڈے وغیرہ تھے جنھوں نے ایودھیا نگری کو مذہبی فساد کی نذر کرنے کا پورا پورا پروگرام بنا رکھا تھا۔

ابھی کچھ دنوں پہلے خبر آئی تھی کہ ریاست مہاراشٹر میں ایک دھرم گُرو نے بذات خود گائے کےگوشت مندر میں رکھوائے اوراُس کی آڑ میں اقلیت واکثریت کے درمیان فساد کرانے کی پوری پوری کوشش کی۔ یہ اوربات ہے کہ اُس کی حقیقت بھی سامنے آگئی اورفساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ علاوہ ازیں مہاراشٹرہی کے ایک دھرم گُرو نے پیغمبراِسلام ﷺ کی شان میں گستاخانہ بیان دیا اوراقلیتی طبقہ کو اُکسایا کہ وہ تشدد پرآمادہ ہوجائے۔ لیکن اقلیتی واکثریتی طبقے کی سوجھ بوجھ سے ایسا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا جیسا شرپسندوں کا منصوبہ تھا۔ جب ایسا نہیں ہوا تو اِس کے کچھ ہی دنوں بعد ریاست اُترپردیش کے ڈاسنہ علاقے کے بدمزاج وبداخلاق دھرم گُرو نے ایک بار پھراپنی مذموم حرکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیغمبراِسلام ﷺ کے خلاف زہرافشانی کی اورملکی ومعاشرتی ماحول بگاڑنے کی تمام تر کوششیں کیں۔ لیکن یہاں بھی اُس کی دال نہ گل پائی، کیوں کہ سنجیدہ مزاج و سنجیدہ فکرافراد نے اُس کی اِس غیرانسانی حرکت کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اُس کے خلاف زبانی طورپر اپنے اپنے احتجاج بھی درج کرائے اورہرطبقات کے لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ ہم ہندوستانیوں کو اِس طرح کے شرپسندوں کے خلاف صف آرا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مشترکہ گنگا-جمنی تہذیب کی عزت و آبرو محفوظ رہ سکے اور کسی بھی طرح کی آپسی منافرت کو سراُٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔

آخرکارشرپسند عناصر کامیاب ہوگئے اوربہرائچ میں فساد پھوٹ پڑا، جس میں شرپسند عناصر کا تو کچھ نہیں بگڑا، اُس کے برعکس سیدھے سادے اورعام انسانوں کی جان پر بن آئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس کے پیچھے کون سے اسباب و عوامل کارفرما ہیں اُن پرغوروفکر کیا جائے مگر اُس کے بجائے لوگ جذباتی ہوئے جارہے ہیں۔ جن شرپسند عناصر نے فساد کی آگ بھڑکائی ہے اُن کی کوئی شدھ بدھ نہیں لی جارہی ہے کہ وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ کس نے اُنھیں اِس مہم پر لگایا تھا؟ لیکن اب ہنگامہ کا رُخ اِس طرف موڑ دیا گیا ہے کہ ایک نوجوان کو گولی مارکرقتل کردیا گیا ہے اور بدلے میں عوامی جان ومال کونقصان پہنچایا جارہا ہے۔ آگ زنی کی جارہی ہے۔ دوکان مکان تو جلائے ہی گئے ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مقتول نوجوان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اُس مقتول نوجوان کے ساتھ ہی یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟

ہندوستان میں موجود کسی بھی مذہبی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ دوسروں کے مذہب کی توہین کی جائے اوردوسری کمیونٹی کے افراد کی ہتک عزت کی جائے۔ نیز دستور ہند میں ایسی کوقانونی شق بھی موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پرکسی خاص مذہب کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھایا جائے، بلکہ مذہبی اور ملکی قانون تو ملک و ریاست میں موجود ہرمذہب کے تحفظ اوراُس کے احترام کی ضمانت دیتا ہے اوراُس کے خلاف جانے والے کو مذہبی اورقانونی مجرم تسلیم کرتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی مذہبی اورملکی ہردوقوانین میں یہ واضح طورپر درج ہے کہ جب کسی قوم و مذہب کے تحفظ پر بن آئے تو اُس قوم اوراُس مذہب کے ماننے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی معقول قدم اُٹھا سکتے ہیں، سامنے والے کے شر وفساد کی سرکوبی کرسکتے ہیں اور اپنا اور اپنے مذہب کے تحفظ کو یقینی بناسکتے ہیں اورایسا کرنا کوئی جرم نہیں ہے، نہ مذہبی اعتبار سے اور نہ ملکی اعتبار سے، البتہ! جہاں تک ممکن ہو اخلاقی طورپر اور اِنسانیت کے ناطے یہ کوشش ضرور ہونی چاہیے کہ نہ ملک کوکسی قسم کا کوئی نقصان پہنچنے پائےاور نہ ہی عوام کی جان ومال تلف ہو۔ ورنہ بصورت دیگر آپسی منافرت اوردشمنی کی جڑیں مضبوط ہوں گی جوملک وقوم کسی کے حق میں ہرگز مفید نہیں۔

ابھی حالیہ بہرائچ فساد کو دیکھ لیجیے جومورتی ویسرجن جلوس کے موقع پر پھوٹ پڑا ہے۔ اُس میں ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔ اندازہ کیجیے کہ اُس کے اہل خانہ کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی اور وہ کس درد وکرب سے گزر رہے ہوں گے۔ کیا حکومت کی طرف سے کی جانے والی امداد سے مقتول کے اہل خانہ کے زخم بھرجائیں گے اور کیا اُن کے گھر کا بجھا ہوا چراغ پھر سے روشن ہواُٹھےگا؟ آخراَیسی نوبت ہی کیوں پیدا ہو کہ جس کے باعث کسی کے گھر کا چراغ بجھ جائے۔

مذہبی جلوس تو اَمن وآشتی کی علامت ہوتی ہے پھر اُس کے پردے میں انتشارو اختلافات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ ایسے مواقع پراکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثریتی طبقہ، اقلیتی طبقہ کے مذہبی مقامات سے اپنے مذہبی جلوس کو لے جانے پر زور دیتا ہے اوراقلیتی طبقہ روکنا چاہتا ہے۔ لیکن اگرکہیں اُخوت ومروت کے پیش نظر اقلیتی طبقہ، اکثریتی مذہبی جلوس کونہیں روکتا اوراَپنے مذہبی مقامات سے گزرنے کی اجازت دے دیتا ہے تواُس پراِحسان مند ہونے اوراُخوت ومروت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اکثریتی طبقہ کی طرف سے انتہائی غیرانسانی حرکتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، پُرتشدد نعرے بازی کی جاتی ہے اورلاؤڈ اسپیکر یا زبانی طورپر کچھ ایسے مذہبی مغلظات بکے جاتے ہیں جنھیں کوئی بھی مہذب معاشرہ کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرسکتا، اورپھر معاملہ کشیدگی پرجا ٹھہرتا ہے۔ حالیہ بہرائچ سانحہ کو دیکھ لیجیے کہ آخرایک خاص قوم کے مکان پرچڑھنے، اُس کی چھت پر لگے مذہبی جھنڈا اُتارپھینکنے اوراُس کی جگہ بھگوا جھنڈا لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ایسا کرنا کسی بھی مذہب میں درست ہے، یا ایسا ہنگامہ خیز قدم اٹھانا اکثریت کے مذہبی پوجا-پاٹ کا حصہ ہے؟ ہمارے خیال سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔

بہرحال اِس طرح کے فسادات تبھی رونما ہوتے ہیں جب کچھ شرپسند عناصر موقع پیدا کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر اکثریت واقلیت ہردوطبقات کے ذمہ داران کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ فسادات میں نہ تو صاحبان اقتدار کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ ہی ایڈمنسٹریشن پر کچھ فرق پڑتا ہے۔ بلکہ دونوں طبقے ہی جانی و مالی نقصانات کے شکار ہوتے ہیں، اِس لیے گاؤں-محلہ کے سربراہان خواہ اُن کا تعلق اکثریت سے یا اقلیت سے، اَیسے مواقع پر جذباتی افراد کو قابو میں رکھیں اوراُنھیں شرپسند عناصر کا شکار ہرگز نہ بننے دیں۔ مذہبی جلوس کو مشترکہ گنگا-جمنی تہذیب کی علامت کے طورپرپیش کریں، ورنہ بصورت دیگر ملک ومعاشرے کو سخت نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے