ڈاکٹر جہاں گیر حسن
امریکی سیاسی بساط اُلٹ چکی ہے اورجوبائیڈن کی جگہ ٹرمپ دوسری بار۴۷ویں صدرکے طورپر منتخب ہوچکے ہیں۔ حالاں کہ نومنتخب صدر پچھلے صدارتی انتخاب میں شکست کھا چکے تھے، یہ اور بات تھی اُنھوں نے اپنی شکست ماننے سے اِنکار کر دیا تھا اور ردِّعمل کے طورپرک ’یپیٹل ہلز‘ میں اپنےحامیوں کے ساتھ سخت متشدد اورغیرجمہوری رویہ اختیار کیا تھا۔ ذاتی طورپر دیکھا جائے تو وہ مختلف سنگین جرائم میں ملوث ومجرم پائے گئے تھے۔ رائےدہندگان کی نظرمیں بھی وہ کچھ خاص شخصیت کے حامل نہیں تھے۔ اِس کے باوجود رِی پبلکن اُمیدوارکا صدر منتخب ہوجانا بڑا ہی حیرت انگیز ہے۔ ری پبلکن کی جیت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ جس تہذیب وثقافت اور جس ایوانِ سیاست میں حقوق نسواں پر لمبی چوڑی تقریریں ہوتی ہیں اورحقوق مرداں کی طرح حقوق نسواں کو مساوات کا درجہ دیے جانے پر سارا زُور صرف کیا جاتا ہے، آج اُسی تہذیب وثقافت اوراُسی ایوانِ سیاست کے منصب صدارت تک پہنچنے سے ایکبارپھرایک خاتون کو رُوک دیا گیا۔ اِس سے پہلے۲۰۱۶ء میں مسزہیلری کلنٹن امریکی منصب صدارت تک رسائی حاصل کرنے سے محروم کردی گئی تھیں، پھر ٹرمپ نے اپنی سیاسی حریف مسزکملا ہیرس پر جس قدر توہین آمیزاورنسل پرستانہ فقرے کسے، صنفی منافرت کا مظاہرہ کیا اور تفریق کے واضح اشارے دیے اُس کے باوجود وہ کامیاب گئے، تو اِس کا واضح مطلب ہے کہ حقوق نسواں سے متعلق امریکی باشندوں اور دانشوروں کا نظریہ قولاً خوشنما اورعملاً بڑا ہی مکروہ ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہےکہ حقوق نسواں سے متعلق اُن کے نظریات ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ کی مانند ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہےکہ امریکی رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کی ناپسندیدگی اورمتنفرانہ رویے کے باوجود ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے؟ اِس کے دوبنیادی اسباب ہیں: ایک خوشنما و دلفریب انتخابی وعدےاوردوسرے الیکٹرول کالج نظام۔ یعنی اُنھوں نے اپنےانتخابی وعدوں میں جہاں عوام وخواص کی روزمرہ مستعمل اشیا کی گرانی اور رُوزگارومعاشی بحران کو اپنا موضوع سخن بنایا تووہیں امریکی نیشنلزم کوسب پر مقدم رکھنے کا نعرہ دیا، اورکثرتِ جرائم کے اصل اسباب اُن تارکین ِوطن کو قرار دیا جواَمریکہ میں آبستے ہیں، توایسوں کو ملک بدرکردینے پر بھی بخوبی زور دیا۔
یہ تمام باتیں الیکٹرول کالج نظام میں شامل امریکی دانشوروں کے مزاج کے عین مطابق ثابت ہوئیں، کیوں کہ وہ کبھی نہیں چاہتے کہ امریکی نژاد پر کسی غیرامریکی نژاد کو فوقیت حاصل ہو اورکملاہیرس ٹھہریں ہندنژاد۔ علاوہ ازیں فلسطین وخطےمیں جنگ بندی اوراَمن بحالی کےاعلانات نے امریکی مسلمانوں پراپنی گرفت مضبوط کرلی اوریوں وہ بھی حالات و جذبات کے شکار ہوگئے۔ لہٰذا یہ دیکھنا بڑا اہم ہوگا کہ نومنتخب صدراَمریکی رائے دہندگان سےکیے گئے اپنے وعدوں کو کیا واقعی پورا کرپائیں گے؟ کیا وہ سچ میں بحیثیت امریکی صدرغزہ جنگ کو رُوک پائیں گے اورکیا وہ اسرائیل کی اندھی حمایت ترک کردیں گے؟
واضح رہے کہ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کوامریکی وزیرخارجہ نےاپنے اسرائیلی ہم منصب کے نام ایک خط بھیجا اوراِس بات پربالخصوص زوردیا تھا کہ وہ تیس دنوں کے اندرغزہ صورتحال کو بہتر بنائے، ورنہ بصورت دیگر سنگین نتائج کے ذمےداروہ خود ہوں گے۔ لیکن آج ایک ماہ ہوجانے کے باوجود اِسرائیل کی طرف سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اورغیرقانونی طورپروہ سب کچھ کرتا رہا جس سے اُس کو منع کیا گیا، تو امریکی وزیرخارجہ نے ایک بار پھر اُسے یاد دہانی کرائی ہے کہ اُس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اِسی معاملے پراپنا سخت ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ’امریکن مسلم تنظیم‘ نے سابق صدر جوبائیڈن کو’’جنگی مجرم‘‘ قراردیا ہے کہ اُس نےغیرآئینی طورپراسرائیل کا مالی تعاون کیا ہے، تواِس صورتحال کے پیش نظر ٹرمپ کیا ردّ عمل ہوگا؟
مزید برآں ایک طرف نومنتخب صدر کے اعلانات اور وعدوں کو سامنے رکھیے اور دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں ہندوستانی سیاست دانوں کی طرف سے انتخابی اعلانات اور وعدوں کو سامنے رکھیے تو واضح طورپربہت کچھ سمجھ میں آجائےگا کہ جس طرح ہندوستان کے اندر بکثرت روزگاروملازمت دینے، روزمرہ مستعمل اشیا کی قیمتوں پر قابو پانے، ہرایک شہری کو پندرہ لاکھ روپے دینے، کالادھن کی واپسی اور دراَندازوں کو ملک بدر کرنے جیسے حساس مسائل پراِنتخاب لڑا گیا اوربڑی آسانی سے جیت بھی لیا گیا تھا۔ لیکن انتخاب جیتنے کے بعد کیا ہوا؟ اُس سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں۔ انتخاب میں کیے گئے وعدے وارادے پورےاورمکمل تو نہیں ہوئے، البتہ! بےروزگاری و معیشت کا بحران مزید شدت اختیار کرگیا۔ تقسیم درتقسیم کی سیاست چل پڑی۔ اپوزیشن کو اِعتماد میں لینے اور ملکی ومعاشرتی ترقیات کے سلسلے میں قدم بڑھانے کی بجائے انتقامی رویہ کو مہمیز کیا گیا۔ یہاں تک کہ مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ دستورہند کے مطابق قائم ریاستی حکومتوں کوبھی نہیں بخشا گیا اور تمام تر قانونی واخلاقی اُصولوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی خرید وفروخت کی گئی۔ اُخوت ومروت سے لبریزماحول کو نفرت وتعصب کے سپردکردیا گیا۔ مذہبی جذبات سے کھیلواڑ کیا گیا۔ اِنسانی لاشوں کے سہارے ایوان سیاست پر قبضہ جمایا گیا۔ عوامی وملکی مفاد پرہمیشہ سیاسی وذاتی مفاد کوترجیح دی گئی۔ یہی کچھ حال ہمیں موجودہ امریکی سیاست کا بھی ہوتانظرآرہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ نومنتخب صدرکی طرف سے مستقبل میں کچھ ایسےاقدامات کیے جائیں، جن کے سبب تقسیم کی سیاست کو تقویت ملے اور نفرت وتعصب کا ماحول گرم ہوجائے جیسا کہ دورانِ انتخاب مرد وخواتین کے دوحصوں میں تقسم ہونے کا معاملہ سامنے آچکا ہے۔ امریکی اورغیرامریکی نژاد کا مسئلہ پہلے ہی سے موجود ہے۔ پھر اپوزیشن نظریے کےحامل ملازمین و قائدین کی برطرفی کا عمل بھی بروئےکار لایا جاسکتا ہے، یاپھر اُنھیں حکومت کا وفادار بنے رہنے پر بہرصورت مجبور کیا جاسکتا ہے۔ خود اپوزیشن کوبھی اِس بات کاخوف ہے کہ ٹرمپ عدلیہ اور دیگرمقننہ شعبوں کو بطورِسیاسی ہتھیاراِستعمال کرسکتے ہیں۔
بہرحال جوشخص جیتنے سے پہلے ہی خاتون حریف کے لیے جارحانہ، توہین آمیزاورسخت وسست زبان استعمال کرسکتا ہے، دوسرے ممالک سے آنے اور امریکہ میں بودوباش اختیار کرنے والے کو ’کچڑے کا ڈبہ‘ کہہ سکتا ہے، اپنے مخالفوں وحریفوں کو’اندرونی دشمن‘ قراردے سکتا ہے اورجو عام رائےدہندگان کی حمایت پر نہیں، بلکہ انسانی برادری کو غلام وآزاد کے خانے میں تقسیم کرنے والے الیکٹرول کالج نظام کی معاونت سے برسراقتدارآیا ہو، تخت صدارت پر بیٹھنے کے بعد وہ کس حد تک جاسکتا ہے؟یہ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ نیز جس متعصب ذہنیت ونظریے کے مالک امریکی رائے دہندگان نے موجودہ نامساعد حالات میں بھی ٹرمپ کو ایک بارپھر سے سنہراموقع دیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہےکہ وہ اپنے ہم نظریہ لوگوں کے خلاف چلے جائیں، یہ پہلو بھی قابل غور ہے۔ لہٰذا فلسطین وخطے میں جنگ بندی اوراَمن وآشتی کی بحالی، روزگارکے مواقع وفراہمی، معاشی واقتصادی انقلاب، جمہوری نظام وقانون کا منصفانہ نفاذ اورسیاہ وسفید فامزکے درمیان اتحاد واتفاق کے سلسلے میں صدرموصوف سے پُرامید ضروررہنا چاہیے، لیکن جہاں تک یقین ِ واقعی اوراعتمادِ کامل کا سوال ہے توہمارے خیال میں یہ محض ایک خوش فہمی ہے اِس کے سوا اورکچھ نہیں۔
