ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ہندومسلم تعلقات ومنافرت کا مسئلہ بڑاہی پُرپیچ ہے، البتہ! اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ایک مشترکہ تہذیب وورثے کی داستان ہے، جس میں محبت، بھائی چارے اور باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً تنازعات بھی شامل رہے ہیں۔ اس تعلقات میں نفرت اور فرقہ واریت کا عنصر دراصل سیاسی عوامل اور معاشرتی ومذہبی ناچاقی اورمسائل کی وجہ سے پروان چڑھا۔ اِس تنازع نے صرف فریقین کوہی نقصان سے دوچار نہیں کیا ہے بلکہ ہندوستان اوراُس کی معاشرت کو بھی سخت تکلیف پہنچایا ہےاورآج بھی پہنچا رہا ہے۔ ہندومسلم منافرت کے خاتمے پراِنتہائی سنجیدگی سے غوروفکر کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اِس کے خاتمے کے سبب صرف فریق کو نفع حاصل نہیں ہوگا بلکہ ملک ومعاشرہ بھی تعمیر وترقی کی راہ میں سنگ میل طےکرےگا۔ لہٰذا ہم لوگ پہلے اُن وجوہات کو سمجھیں جومذہبی وطبقاتی عداوت نفرت کا باعث بنتی ہیں اورپھراُن کا حل تلاش کریں اوراِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سبھی متحدومتفق ہوکر درج ذیل باتوں کو فوقیت و اہمیت دیں اور ہم سبھی ہندوستانی اُنھیں اپنے شب روز کی زندگی میں بالالتزام شامل ونافذ کرلیں، مثلاً:
1۔ تعلیم و شعور: تعلیم و شعور کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے۔ یہ اِنسانی زندگی کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب تک ملک ومعاشرے میں تعلیم و شعورکو فروغ نہیں دیا جائےگا، سچ اورجھوٹ کے درمیان تمیز کا مادّہ پیدا نہیں ہوگا اورمنافرت کے خاتمے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ لہٰذا تعلیمی نظام میں ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے صرف تعلیم کا حصول نہ ہوبلکہ شعور بھی پیدا ہواورملک ومعاشرے میں ایک مثبت و مؤثر تبدیلی بھی آئے۔ تعلیم کی مدد سےمحض جدید علوم وفنون کے میدان میں فتح یابی حاصل نہیں کی جانی چاہیے بلکہ اخلاقی قدریں بھی مستحکم ہونی چاہیے تاکہ مختلف برادریوں کے مابین احترام کا جذبہ پیدا ہو۔ تعلیم و شعورمیں بیداری کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کی فکر میں وسعت آتی ہے۔ وہ چیزوں کو بغوردیکھتا اورسمجھتا ہے۔ کسی بھی حادثے یا واقعے کو وہ بلاتفتیش قبول نہیں کرتا۔ علمی و شعوری تجربات اُسے حقائق سے جوڑدیتے ہیں۔ وہ روزمرہ کی باریکیوں سے روشناس ہوتا رہتا ہے۔ نتیجتاً وہ ایک حقیقت پسند فرد بن جاتا ہےاوراُس کے اندرملک ومعاشرے سے تمام شروفساد پر قابو رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
2۔غلط معلومات کا خاتمہ: غلط معلومات کے نقصانات بہت سنگین ثابت ہوسکتےہیں بلکہ آج ہورہے ہیں۔ جب عوام کے درمیان بے بنیاد باتیں پھیلتی ہیں تو معاشرتی، معاشی اور سیاسی مشکلات کا پیدا ہونا فطری امرہے۔ فسادات اوردہشت گردی جیسے سانحے انجام پانےلازمی ہیں۔ خوف ودہشت کا ماحول گرم ہونا اورآپسی انتشار کا رونما یقینی ہونا ہے۔ اُسی طرح، سیاسی میدان میں جھوٹ اورغلط بیانی سے معاشرتی فرقے اور قومیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہیں اوراِتحاد و یگانگت کا شیزارہ بکھر جاتا ہے۔ چناں چہ اسکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں میں ایسی تعلیمات کا انتظام ہونا چاہیے جو لوگوں کو جعلی اور حقیقی خبروں کے درمیان فرق کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوں، اوراِس کے لیے صاحبان اقتدار کو اَیسے تمام پلیٹ فارمز کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جوغلط معلومات کی تبلیغ واشاعت میں ملوث پائے جاتےہیں۔ بالخصوص اُن چینلوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے جومحض ٹی آرپی حاصل کرنے کے لیے کسی تصدیق وتوثیق کے بغیرخبریں نشرکرتے ہیں اوربے بنیاد باتیں ملک ومعاشرے میں پھیلاتے ہیں۔
3۔مشترکہ تقریبات اور ثقافتی میل جول: مشترکہ تقریبات اورثقافتی میل جول کا تصور، اِنسانی معاشرت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ قدیم زمانے سے موجودہ جدید دور تک، ہرملک ومعاشرے کو مشترکہ تقریبات وثقافتی میل جول نےایک پلٹ فارم پرمجتمع کررکھا ہے۔ اُن کے ذریعے نہ صرف مختلف قوموں اوربرادریوں کو قریب لایا جاسکتا ہے بلکہ اُن کی تہذیب و تمدن، روایات، اور زبانوں کوبھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک دوسرے کے رہن سہن، رسوم و رواج، خیالات و تجربات اور زبان وثقافت کے بارے میں بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی مشترکہ تقریبات کا انعقاد بچوں اور نوجوانوں کو مختلف ثقافتوں سے روشناس ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جب مختلف قوموں کے افراد اجتماعی طورپراپنا تہوار منائیں گے، تو ملکی ومعاشرتی ہم آہنگی کا جذبہ اُبھرےگا۔ باہمی احترام اور وخوت ومروت کے ساتھ رہنے کامزاج وحوصلہ ملےگا۔ بلکہ یہ ثقافتی تقریبات باہمی اعتماد بحال کریں گی، مذہبی اِختلافات کو کم کرے گی اور یہ احساس بھی دلائےگی کہ ہم سب انسان ہیں حیوان نہیں۔
4۔معاشرتی اور معاشی مساوات: غربت اورمعاشی عدم مساوات بھی منافرت کا سبب بنتی ہے۔ اگر حکومت اور سماجی ادارے اِس مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دیں اورغریب طبقے کے حالات کو بہتر بنائیں تو دونوں برادریوں کے افراد میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت میں کمی آئےگی۔ نیزمعاشرتی ومعاشی مساوات کا موقع فراہم کرکے آپسی تعلقات کو مضبوط اورمستحکم کیا جاسکتا ہے۔ معاشرتی ومعاشی مساوات کا واضح مطلب ہے کہ ہر فرد کو سماج میں یکساں درجہ دیا جائےاورحصول معاش کے لیےاُنھیں یکساں مواقع حاصل ہوں، مثلاً بلاامتیازمذہب وقوم ہرایک کی تعلیم و تعلّم، صحت وتندرستی اورعزت ووقار کا خیال رکھا جائے۔ مالی وسائل کی تقسیم، روزگاروملازمت اوردیگرسہولیات میں سب کو شامل کیا جائے۔ اِس سلسلے میں صاحبان اقتدارکو چاہیے کہ وہ امیروغریب کی تفریق ختم کریں اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں۔ کیوں کہ یہ تمام باتیں کسی بھی ملک ومعاشرے کی ترقیات وخوشحالی کی کنجیاں ہیں۔ اِن کے بغیر ایک منصفانہ اورمستحکم وملک معاشرہ تشکیل دینا ممکن نہیں ہے۔
5۔قیادت کا مثبت کردار: سیاسی قائدین اورمذہبی رہنما بھی سماج ومعاشرت میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنی تقاریر میں صلح و آشتی کی بات کریں اورمنافرت کے بجائے محبت کو فروغ دیں، تو لوگ بھی اُن کی پیروی کریں گے اورمنافرت کو چھوڑ دیں گے۔ کیوں کہ ایک مثبت و مستحکم قیادت اپنے اثر و رسوخ سے محض عوام کی کارکردگی کو ہی آگے نہیں بڑھاتی، بلکہ اُن کے کردار میں بھی بہتری لاتی ہے۔ مثبت قیادت انفرادی و اجتماعی ترقیات کے راستے کھولتی ہے اورایک خوشحال معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اخلاقی طورپرایمانداری، انصاف پسندی اورخوش فکری کی فضا قائم کرتی ہے۔ ٹیم ورک اوراشتراک عمل کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ آپسی مفادات کے تئیں بیداری لاتی ہے۔ خوداعتمادی، قبول حق اورمثبت فکر پیدا کرتی ہے۔ انتشاروافتراق پر قابو پانے کاحوصلہ اورہمت دیتی ہے۔ ہرفرد کواِطمینان وسکون، مستقل مزاجی اور خوش کرداری کے ساتھ آگے بڑھاتی ہے۔ گویا مثبت قیادت کے تحت، نہ صرف تنظیمیں بلکہ پوراملک ومعاشرہ ترقی اورخوشحالی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔
6۔مشترکہ فلاحی پروگرام: مشترکہ فلاحی منصوبوں میں تمام برادریوں کی شمولیت وافادیت کو یقینی بنانا لازم ہے، تاکہ تمام برادریاں اجتماعی طورپرکام کریںاورایک دوسرے کے حق میں معاون ومفید ثابت ہوں۔ آج جو منافرت کی گرم بازاری ہے اُس کا اصل سبب فلاحی طریقہ کارہی ہے کہ مشترکہ فلاحی منصوبوں میں یکطرفہ برادری کو جگہ دی جاتی ہے۔ حالاں کہ ایک برادری کے علاقے میں صفائی وستھرائی اور دیگر سوشل خدمات کے لیے دوسری برادری کو مہم پر لگانا چاہیے، تاکہ جس دوری اورعدم روابط کے باعث دوبرادریوں اوردوطبقوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اورمنافرت کو بڑھاوا دیا جارہا ہے اُس کا خاتمہ بخوبی کیا جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ایک طرف مشترکہ فلاحی منصوبے ملک ومعاشرے کی امن بحالی میں خوش گوار ثابت ہوسکتے ہیں تو دوسری طرف ہرشہری کے معیارفکر میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔ صاحبان اقتدار کو اِن پہلوؤں پر غورکرنا چاہیے۔
غرض کہ ہندومسلم مافرت کا خاتمہ ممکن ہے بشرطیکہ ہم اپنی فکروخیال کو مثبت رکھیں اورایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دونوں برادریاں ایک مشترکہ ثقافتی وتاریخی پس منظر رکھتی ہیں، لہٰذا اُسے مزید مضبوط بنا نےکی ضرورت ہے تاکہ ملک ومعاشرے کی خوشحالی اورامن کوبحال رکھا جاسکے اورمحبت والفت اور یکجہتی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ اس کے لیے صرف ارادہ اورزبانی خرچ ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات ہونے بھی ضروری ہیں تاکہ آنے والے نسلوں کوہم ایک خوشحال اورمتحدہ ملک ومعاشرہ دے سکیں۔
