ضیاء الرحمٰن علیمی
اعلانِ نبوت سے لے کر زمانۂ وصال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں معاشرے کےمَردوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کی تربیت فرمائی وہیں آپ نے بچوں کی بھی تربیت فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اَکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھرمٹ میں بیٹھنے والوں اور آپ کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہونے والوں میں جہاں معمراور نوجوان صحابہ ہیں وہیں آپ کی خصوصی نگاہِ فیض سے تربیت پانے والوں میں علی،حسن وحسین، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن زبیر، عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن عمرو، زید بن ثابت، اُسامہ ابن زید، عُمیربن وقاص، رافع بن خدیج، سمرہ بن جندب جیسے بہت سارے صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) ہیں جنھوں نے اپنا بچپن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزارا ہے۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں درج ذیل نبوی اُصول تربیت ملتے ہیں:
۱۔ مثالی شخصیت اور کردار: بچوں کی تربیت کے حوالے سے سب سے اہم نبوی اُصول یہ ہےکہ مربی کی شخصیت اپنے زیرتربیت لوگوں کے لیے بالعموم اور بچوں کے لیے بالخصوص مثالی ہونی چاہیے۔کیوں کہ جب مربی کی شخصیت اعلیٰ اور اُس کا کردار قابل تقلید ہوتا ہے تو زیرتربیت لوگوں پر اُس کا فطری اثر مرتب ہوتا ہےاور مربی کی شخصیت میں جو صالح عقائد واعمال اور اَعلیٰ اخلاق واقدارکے انوار ہوتے ہیں اُن سے زیرتربیت لوگ منور ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: بےشک تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونۂ عمل ہے۔ (الاحزاب۲۱) رَسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، البتہ! اُس کے والدین اُسے یہودی، عیسائی اور پارسی بنادیتے ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث:۱۳۵۹)
اِس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہےکہ بچے اپنے معاشرے میں جن بزرگوں کے درمیان زندگی گزارتے ہیں اُن کی اچھی یا بُری زندگی کا براہِ راست اثر اُن بچوں پر بھی پڑتا ہے۔ اب اگر مربی کی شخصیت پُرکشش اور علمی، عملی واخلاقی لحاظ سے آئیڈیل ہوگی تو بچے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
۲۔ بچوں پر شفقت و رحمت: بچوں کی تربیت کا ایک اہم نبوی قاعدہ یہ ہے کہ اگر مربی یہ چاہتا ہےکہ اُس کی تربیت موثر ہوتو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں سے شفقت ورحمت کے ساتھ پیش آئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن وحسین ( رضی اللہ عنہما) اور سیدہ زینب کی شہزادی حضرت اُمامہ (رضی اللہ عنہما) کے ساتھ شفقت وپیار سے پیش آتے۔ اُن کو سونگھتے، بوسہ لیتے، یہاں تک کہ اگر نماز کی حالت میں آپ کے کاندھے پر سوار ہوجاتے تواُس حالت میں بھی اُن کو اپنی پیٹھ سے نہیں اُتارتے۔ ( صحیح بخاری، حدیث:۵۱۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا اِس لیے کرتے تاکہ آپ کی محبت وشفقت کا اثر اچھی تربیت کی صورت میں ظاہر ہوسکے۔
۳۔بلا ضرورت ڈانٹ ڈپٹ سے اجتناب: بچے فطرتاً محبت سے قریب ہوتے ہیں۔نرمی کو پسند کرتے ہیں، ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے دور بھاگتے ہیں اور عمومی حالت میں سخت مزاج لوگوں کی تربیت کا اثربہت کم قبول کرتے ہیں۔ اِسی لیے ایک اہم نبوی اُصول یہ بھی ہے کہ تربیت کے دوران ڈانٹ ڈپٹ پر محبت ونرمی غالب ہونی چاہیے۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور رِفق کو پسند فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث:۷۹۲۷) اسی طرح اُس کی رحمت اُس کی غضب پر سبقت لے گئی۔(صحیح بخاری، حدیث:۷۴۵۳) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں دس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا۔ لیکن کبھی آپ نے میرے کسی عمل پر تکلیف کا اظہار نہیں فرمایا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا؟ (صحیح بخاری، حدیث: ۶۰۳۸)
۴۔سیروتفریح کے وقت تربیت: بچوں کی تربیت کا یہ بھی ایک اہم نبوی اُصول ہے کہ اُن کی تربیت مناسب وقت پر کی جائے اوراُن کی تربیت کے لیے خاص ایسے مواقع تلاش کیے جائیں جب اُن پر تربیت کا گہرا اَثر مرتب ہوسکے۔ اُنھیں مناسب اوقات میں ایک وقت یہ بھی ہے کہ بچے جب فرصت کے اوقات میں ہوں، سیر وتفریح کےلیے نکلے ہوں، سواریوں پر گھوم رہے ہوں اُس وقت اُن کی تربیت کی جائے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عزیز! میں تم کو کچھ نصیحتیں کررہا ہوں اُنھیں یاد رکھو۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائےگا۔ اُسے ہمیشہ اپنے دل ودماغ میں بسا کر رکھوتم ہمیشہ اُسے اپنے سامنے پاؤگے۔ کوئی چیز مانگو تواللہ ہی سے مانگو، مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرواور یہ بات ذہن نشین رکھوکہ اگر سارے لوگ مل کر تم کوکوئی فائدہ پہنچانا چاہیں تو حقیقتاً وہ وہی فائدہ پہنچاسکیں گے جواللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ مل کر تمھیں نقصان پہنچانا چاہیں تو و ہی نقصان پہنچاسکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ قلم اُٹھا لیا گیا ہے اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔ (سنن ترمذی،حدیث:۲۵۱۶)
یہاں غورکریں کہ اِتنی گراں قدر نصیحتوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر پُرسکون وقت کا انتخاب فرمایا۔ یہ دراصل بچوں کی نفسیات کے عین مطابق ہے۔ اگر بچے پہلے سے ذہنی طورپر بوجھل ہوں تو اُن پر نصیحتوں کا اثر بہت کم ہوتا ہے، اس کے برخلاف اگر یہی باتیں پُرسکون لمحات میں کہی جائیں تو دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ فطری طور پر سیر وتفریح کے دوران ہونے والی باتیں بچوں کی یاد داشت میں دیر تک نقش رہتی ہیں۔
۵۔بیماری کے وقت تربیت: بچوں کی تربیت کا ایک نمایاں نبوی اُصول یہ بھی ہے کہ مربی بچوں کی تربیت کے لیے اُن کی بیماری کے اوقات کا انتخاب کرے۔ اس لیے کہ بیماری کی حالت میں انسان فطری طورپر نرم اور نصیحتوں کو قبول کرنے کی حالت میں ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں جب کوئی بات نرمی کے ساتھ کی جاتی ہے تو بچے بڑے پیارسے اُسے قبول کرلیتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ بیمار پڑگیا تو آپ اُس کی عیادت کےلیے تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اے بچے! اسلام قبول کرلو۔ اُس بچے نے اپنے والد کی طرف دیکھا۔ اُس کے والد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو۔ چناں چہ وہ بچہ مسلمان ہوگیا اور پھر آپ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے: اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے کہ اُس نے اُس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔ (صحیح بخاری، حدیث:۱۳۵۶)
۶۔کھانے کے وقت تربیت: بچوں کی تربیت کا ایک خاص نبوی اُصول یہ بھی ہے کہ مربی بچوں کی تربیت کے لیے کھانے پینے کے وقت کا انتخاب کرے اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ کھانے پینے کے وقت بچوں کی طبیعت بوجھل نہیں ہوتی، بلکہ اُس وقت اُن کی طبیعت میں فرحت وانبساط ہوتا ہے۔
حضرت عمر بن ابوسلمہ سے مروی ہے اُنھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں کم عمر بچہ تھا۔ کھانے کے وقت پلیٹ میں یہاں وہاں ہاتھ مارا کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سمجھاتے ہوئے فرمایا: اے بچے! بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنےسامنے سے کھاؤ۔ حضرت عمر بن ابوسلمہ کہتے ہیں کہ اِس کے بعد میں نے اُسی طرح کھانا شروع کردیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا تھا۔ (صحيح مسلم،حدیث:۵۳۷۶)
۷۔بچوں کے درمیان عدل ومساوات: بچوں کی تربیت کا ایک اہم نبوی اُصول یہ بھی ہےکہ اُن کے درمیان برابری کا مظاہرہ کیا جائے، اُن کے دلوں میں محبت کے پودے لگائے جائیں،اُن کے سینوں کو کینہ اور حسد سے پاک کیا جائےاور اُس کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ بچوں کے مابین تحفوں کی تقسیم، محبت کےاظہار اور اِن کی عزت کے معاملے میں برابری کا مظاہرہ کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر اِس کے بُرے نتائج سامنے آتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ناانصافی کی بنیاد پر مربی کی شخصیت اُن بچوں کی نگاہوں میں مجروح ہوجاتی ہے، اُن کے اندر مربی کی باتوں کو قبول کرنے کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے اور پھر اُس کی ہزار نصیحت کا بھی اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اورعرض کی: یارسول اللہ! آپ گواہ بن جائیں کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو اپنے مال کا اتنا حصہ دے دیا ہے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے جتنا مال نعمان کو دیا ہے اُتنا ہی اپنے دوسرے بیٹوں کو بھی دیا ہے؟ اُنھوں نے کہا: نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھرتم کسی اور کو اِس پر گواہ بنادو۔ (صحیح مسلم، حدیث:۱۶۲۳)
۸۔بچوں کے جائز حقوق کا خیال: بچوں کی تربیت کا ایک اہم نبوی اُصول یہ بھی ہے کہ بچوں کے جائز حقوق کا خیال رکھا جائے، مثلاً: اگرکھانے پینے میں پہلے اُ ن کا حق بنتا ہوتو اُن کو مقدم رکھا جائے اور اگر بڑوں کو پہلے دینے کی ضرورت پیش آجائے تو اُن سے اجازت لی جائے۔ اِس کا نفسیاتی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر یہ احساس جاگتا ہے کہ اُن کی بھی اہمیت ہے اوراُن کی شخصیت بھی لوگوں کے نزدیک قابل احترام ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اُن بچوں کے دلوں میں مربی کا مقام اور بلند ہوجاتا ہےاورنصیحت کی راہیں اور زیادہ کھل جاتی ہیں۔ حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا۔ آپ کے دائیں ایک بچہ بیٹھا اور وہ سب سے کم عمر تھا جب کہ بائیں طرف بڑی عمر کے لوگ موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس بچے سے اجازت طلب کرتے ہوئے فرمایا: اے بچے! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں پہلے بڑوں کو دودھ پیش کروں؟ اُس بچے نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوبابرکت پس خوردہ مجھے مل رہا ہے اُس پر میں دوسروں کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس بچے کو دودھ کا پیالہ دے دیا۔ (صحیح بخاری، حدیث:۲۳۵۱)
یہاں دیکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اُس بچےکے حق کا خیال رکھا اور جب اُس بچے نے اجازت نہیں دی تو آپ نے بڑوں کو دودھ کا پیالہ دینے کی بجائے اُس بچے کو ہی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس منصفانہ عمل نے یقینی طورپر اُس صحابی کی زندگی پر گہرا نقش چھوڑا ہوگا۔
۹۔بچوں کے لیے کھلونے اور تحفے: بچوں کی تربیت کا ایک اہم نبوی اُصول یہ بھی ہے کہ اُن کو کھلونے اور گفٹ لاکر دیے جائیں اور اُن کو کھلونوں سے کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ اِس سے بھی اُن کے دلوں میں تربیت کرنے والوں کی محبت پیدا ہوگی اور نصیحتوں کو قبول کرنے کا جذبہ پروان چڑھےگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُمامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما کو قیمتی ہار تحفے میں دیا۔ (مسند احمد، مسند عائشہ، حدیث:۲۴۷۰۴) اِسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ِ ِکی موجودگی میں سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم،حدیث:۲۴۴۰)
۱۰۔بچوں کے لیے دعا: بچوں کی تربیت کا ایک اہم نبوی اُصول یہ بھی ہے کہ اُن کے لیے دعا کی جائے۔ مربی جب بچوں کے لیے دعا کرتا ہے تو اُس کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دعا کو قبول فرما کر اُس کی تربیت کے اثرات کو اُن کی زندگی میں اپنے فضل وکرم سے ظاہر فرماتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اُن بچوں کے اندر بھی دعا کی برکت سے مربی کی مزید محبت اور اُس کی باتوں کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بچے بھی اپنے مربیوں کے لیے اُن کی زندگی میں اور انتقال کے بعد دعائے خیر کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگا کر مجھے یہ دعا دی: یا اللہ! اس کو قرآن کا علم عطا فرما۔ (صحیح بخاری، حدیث:۷۲۷۰)۔
خلاصہ یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی تربیت کےلیے مختلف حکیمانہ اُسلوب اختیار فرمایا کرتے تھے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اِن سب اُصولوں کی بنیاد درحقیقت دوباتوں پر ہے: پہلی یہ کہ تربیت کے لیے پُرسکون اور پُرلطف لمحات کا انتخاب کیا جائے اورایسے وقت اُن کی تربیت کی جائے جب بچے اِن قیمتی باتوں کو اپنے دل و دماغ میں بسا سکیں۔ دوسری یہ کہ مختلف اسالیب کے ذریعے مُربی اپنی شخصیت کو اُن بچوں کی نگاہ میں باعظمت بنائے، حسن اخلاق اور حسن معاملہ کی راہ سے اُن بچوں کے اندر اپنی محبت پیدا کرے اوربچوں کو بہرصورت یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ وہ اُس کی دینی و دنیوی کامیابی کا حریص ہے اور اُس کا ایک مخلص دوست ہے جوعلم وعمل، عمر اور تجربےمیں اُس سے بڑا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبوی اُصول کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

