• منگل. اگست 19th, 2025

کشمیریوں پراِس قدرمہربانیاں کیوں؟

Byhindustannewz.in

ستمبر 24, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن


’’ہم ہمارا ایک سنکلپ پتر لے کر آپ کے درمیان آئے ہیں۔ ہم آپ سے کہنا چاہتے ہیں کہ بھارتیہ جتنا پارٹی ہر گھر کے عمردراز خاتون کو سالانہ اٹھارہ ہزار کا چیک دینے کا کا م کرےگی اور اِس کے ساتھ ساتھ عید کے موقع پر، محرم کے موقع پر دوگیس کے سیلنڈر مفت دیے جائیں گے۔‘‘ مسٹر اَمت شاہ نے یہ ساری باتیں کشمیر کے پہاڑی علاقے میں واقع مینڈرکے اپنے ایک انتخابی جلسے میں کہی، جہاں وہ بی جے پی اُمیدوار مرتضی خان کی حمایت میں عوام و خواص سے مخاطب تھے۔ مسٹر امت شاہ کے اِس وعدے پر ایک شاعر کی زبان میں ہم محض یہی کہیں گے کہ ’’خوشی سے مرنہ جاتے جو اعتبار ہوتا‘‘۔ بزرگوں نے بڑی سچی اورتجربے کی بات کہی ہے کہ وقت کی مار اَیسی سخت ہوتی ہے کہ جس کے آگے بڑے بڑوں کو منھ کی کھانی پڑتی ہے۔ اِس کی تازہ مثال جموں وکشمیرکا حالیہ انتخاب ہے۔ کل تک جوکشمیراور کشمیریوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے تھے، جن کے نام پر نفرت وتشدد کا بازار گرم کیے ہوئے تھے اور جن کی شبیہ بگاڑنے کے لیےفلم پر فلم بنوا رہے تھے آج اُنھیں کشمیریوں سے کرشماتی انداز میں اظہارِ محبت کیا جارہا ہے۔ کل جن کے پیروں تلے سے زمین کھینچنے کی باتیں شباب پر تھیں آج اُنھیں کو اَٹھارہ-اٹھارہ ہزار کا چیک اورمحرم و عید کے مواقع پر دو-دوسیلنڈر دِیے جانے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ یہ کمال تعجب نہیں تو اور کیا ہےکہ کل تک جوقابل نفرت تھا آج وہ اِس قدرقابلِ محبت کیسے ہوگیا؟ جب کہ یہی مسٹراَمت شاہ ۲۰۲۰ء میں دہلی انتخاب کے موقع پر وزیرآباد کی ایک انتخابی جلسے میں بڑے پُرعزم انداز میں یہ کہتے نظر آئے تھے کہ ’’دوستو! ہمارے سائبرکارکنان سوشل میڈیا کے توسط سے دہلی کے ہرجوان تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ ہم اِس بار۸؍ تاریخ کو دَس بجے سے پہلے کنول کے نشان پر اِتنی زور سے بٹن دبائیں گے کہ اُس دباؤکے کرنٹ سے شاہین باغ والے اُٹھ کر چلے جائیں۔ ‘‘
اِسی موقع پر ایک دوسرے انتخابی جلسے میں مسٹر وزیراعظم مسلمانوں کو اُن کے کپڑوں سے پہچاننے کی بات کررہے تھےکہ ’’بھائیو بہنو! کچھ لوگ شوروغل مچارہے ہیں، طوفان کھڑا کررہے ہیں اوراُن کی بات چلتی نہیں ہے تو آگ زنی کررہے ہیں۔ یہ جو آگ لگا رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن پرجو اُن کے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یہ آگ لگانے والے کون ہیں؟ اُن کے کپڑوں سے ہی پتا چل جاتا ہے۔ مزید مسٹر وزیراعظم ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخاب میں اکثریت کو یہ کہتے ہوئے ڈراتے نہیں تھک رہے تھے کہ ’’پہلے جوحکومت تھی، اُس نے کہا تھا کہ ملک کی املاک پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اِس کا مطلب یہ مال جمع کرکے کس کو بانٹیں گے؟ جن کے زیادہ بچے ہیں اُن کو بانٹیں گے۔ دراَندازوں کو بانٹیں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ دراَندازوں کو دیا جائےگا؟ آپ کو منظور ہے یہ؟ یہ کانگریس والے ماؤں اوربہنوں کے سونے کا حساب کریں گے۔ اُس کی تفتیش کریں گے اور پھر اُس کو بانٹ دیں گے اور اُن کو بانٹیں گے جن کے بارے میں منموہن حکومت نے کہا تھا کہ ملک کی اِملاک پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ بھائیو بہنو! یہ اربن نکسل کی سوچ ہے۔ یہ آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دیں گے۔‘‘ لیکن آج وقت کی ماراَیسی پڑ رہی ہے کہ صاحبانِ اقتدارجس چیز کا الزام کانگریس پر لگا رہے تھے اور جس چیز کے پردے میں وہ نفرت کی سیاست کررہے تھے آج اُس کوبذات خوداپنے حق میں سچ ثابت کررہے ہیں اور جنھیں نیست ونابودکردینے کی بات کررہے تھے اور جن سے نفرت کے اظہار کا کوئی موقع نہیں چھوڑرہے تھے آج اُنھیں لوگوں سے محبت کا اظہار کرتے نہیں تھک رہے ہیں اور کل جن کا جینا حرام کررہےتھے آج اُنھیں کے لیے جینے کے اسباب فراہم کررہے ہیں۔ اُترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار، آسام، جھارکھنڈ وغیرہ ریاستوں میں جس مرتضی خان اوراِس جیسے ناموں سے سخت چڑھ رہتی ہے اور جن کا نام لینا پاپ سمجھا جاتا ہے اِس وقت کشمیرمیں اُنھیں ناموں سے اِس قدر پیار اوراِس قدر محبت کا اظہار کیوں ہورہا ہے؟
بلاشبہ یہ تمام ترسیاسی قلابازیاں ہیں جوکشمیر انتخاب کے پیش نظردیکھنےاور سننے میں آرہی ہیں۔ اِن تمام باتوں سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاست بازوں کا نہ کوئی دین ہوتا ہے اور نہ کوئی مذہب۔ اُن کی نہ کوئی ذات ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی برادری۔ اُنھیں نہ تواکثریت کے مفاد سے مطلب ہوتا ہے اورنہ ہی اقلیت کے جینے مرنے سے کچھ غرض۔ اُنھیں بس اپنی سیاسی فتحیابی چاہیے ہوتی ہے اوراُس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کے لیے جس طرح سے فراخدلی کا اظہار صاحبانِ اقتدار کررہے ہیں تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے پہلے بھی اِس طرح کی قلابازیاں وہ کھاتے رہے ہیں۔ ریاست بہار کے وزیراعلی کے ساتھ آنا-جانا۔ اُسی طرح چندربابو نائیڈو کے ہاتھ ملانا یہ سب کیا ہے؟ سیاسی مفاد ہی کے پیش نظر ہی تو اِس طرح کی تلون مزاجی سامنے آتی رہتی ہے۔ بعین ہآج کشمیری عوام کے ساتھ جو یہ محبتیں کی جارہی ہیں اور ہزاروں کے چیک کے ساتھ سیلنڈربطورِ تحائف پیش کیے جارہے ہیں، یہ سب سیاسی جملے ہوسکتے ہیں۔ جیساکہ اِس طرح کی باتوں کا اقرارخود صاحبانِ اقتدار وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں۔
۲۰۱۴ء کے انتخاب میں زعفرانی جماعت جب برسراقتدار آئی تھی تو اُس کی جیت کے اہم اسباب میں مختلف و متعدد پُرکشش وعدے وارادے ہی تھے، جن وعدوں میں یہ ایک وعدہ بھی سرفہرست تھا کہ کالا- دھن کی واپسی ہوگی اور ہر ایک شہری کوپندرہ-پندرہ لاکھ روپے دیےجائیں گے۔ یہ تمام مرعوب کن وعدے بڑےہی زور-شور سے کیے گئے تھے۔ یہ بات اور ہے کہ آج تک اُن میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوسکا۔ پھراِسی پر بس ہوتا توبھی غنیمت تھا لیکن ایک بار اِس وعدے سے متعلق ایک نیوز اِینکر نے مسٹر اَمت شاہ سے دریافت کیا کہ کالا-دھن کی واپسی اورہرایک کے اکاؤنٹ میں پندرہ- پندرہ لاکھ روپے ڈالے جانے سے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ تو اِس پر اُنھوں نے برجستہ کہا کہ یہ توایک انتخابی جملہ تھا اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ انتخاب جیتنے کے لیے اِس طرح کے وعدے ہرسیاسی جماعتیں کرتی ہیں جن کا پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔
لہٰذا کشمیرکے حالیہ انتخاب میں جس طرح سے وعدے کیے جارہے ہیں اورایک خاص طبقے سے نفرت کرنا اور اُس کے لیے جینے کی تمام ترسہولیات پر قدغن لگانا جس زعفرانی جماعت کی علامت وپہچان ہے وہ جیتنے کے بعد کیا واقعی اپنے کیے گئے وعدے کو پورا رکرےگی؟ یہ سوال قابل غور ہے۔ پھر جو سیاسی جماعت ایک خاص طبقے کا اسپیشل درجہ چھین لینے کے لیے ۳۷۰؍جیسے اہم اوربنیادی آرٹیکل میں چھیڑخانی کرنے کو اَپنی بڑی کامیابی بتاتی ہے اورایک خاص طبقے کو بدنام کرنے کے لیے ’’دی کشمیرفائل‘‘ جیسی بدنام زمانہ اور فتنہ پرور فلم نہ صرف بنواتی ہے بلکہ اُس کو پروموٹ بھی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جس اکثریتی طبقےکے بل پر زعفرانی جماعت نے مرکز میں دو-دوبار واضح اکثریت حاصل کی، پھر بھی نہ تواُس کے لیے روزگار فراہم کیا اور نہ ہی نظام معیشت کو چست درست کیا، پھروہ طبقہ جس کو نقصان پہنچانا ہی زعفرانی جماعت کا مطمح نظر ہے، تو بھلا اُس جماعت سے خیر کی اُمید کیوں کر کی جاسکتی ہے۔ بہرحال موجودہ انتخاب میں حصہ داری کو لازمی بنانے کے ساتھ کشمیری عوام و خواص کو اِن تمام باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور اُسی کے حق میں اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے کہ جس کے باعث ریاست کشمیراور باشندگان کشمیر کی فلاح وبہبودی کے ساتھ جمہوریہ ہند کا وقار بھی محفوظ ومامون رہ سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے