• منگل. اگست 19th, 2025

یہ کیسا ہندوستان بنایا جارہا ہے؟…

Byhindustannewz.in

ستمبر 12, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

فرقہ پرست جماعتیں یا تو اَپنے بنائے ہوئے جال میں خود پھنس گئی ہیں یا پھر اپنی خودغرضی کے لیے ہندوستان کو تباہی و بربادی کی طرف ڈھکیل رہی ہیں۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے۔ لیکن اِس بات سے انکارممکن نہیں کہ فرقہ پرست جماعتیں جہاں ایک طرف اقلیتی مسائل کو چھیڑکر بالخصوص اکثریتی عوام و خواص کو گمراہ کررہی ہیں وہیں دوسری طرف اکثریتی نوجوانوں کو تجارت و روزگارفراہم کرنے اوراُنھیں تعمیری سرگرمیوں مصروف رکھنےکی بجائے اشتعال انگیزی اور آپسی تعصب ونفرت کی آگ میں جھونک رہی ہیں، جس کے باعث آپسی اُخوت ومروت اورخیرسگالی و خوشحالی کا جذبہ توختم ہوہی رہا ہے، اِس کے ساتھ ساتھ اکثریتی نوجوانون کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ہمارے نوجوان ہرممکن تگ ودو کررہے ہیں۔ مقابلہ جاتی امتحانات دے رہے ہیں۔ ڈگریاں بھی حاصل کررہے ہیں۔ لیکن روزگاراَورملازمتیں ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اُن کے ہاتھ نہیں آرہی ہیں۔ نتیجتاً ہمارے نوجوان اِس قدرمایوسی کے شکار ہوچکے ہیں کہ اب وہ اپنی ڈگریوں کو ندیوں میں پھینکنے پرمجبور ہورہے ہیں۔ بعض نوجوان تو عنفوان شباب میں ہی اپنی زندگی کےجنگ ہارتے نظر آرہے ہیں اور خودکُشی کررہے ہیں۔ لیکن اِس طرف کسی کا دھیان نہیں جارہا ہے اِس کے برخلاف مذہبی تحفظات کے نام پر اکثریتی نوجوانوں کو مسلسل اُکسایا جارہا ہےاور اُن کی تعمیرات وترقیات سے صرفِ نظر کیا جارہا ہے۔ کانوڑ یاتری نوجوانوں کو جس قدر ورغلایا گیا اُس سے پورا ملک واقف ہے۔ پُرسکون مذہبی جلوس کی جگہ مشتعل مذہبی جلوس کو فروغ دینا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جس مذہبی جلوس میں رسومات کی ادائیگی پر زور ہونا چاہیےاُس میں مذہبی نعرے بازی کے پردے میں اشتعال انگیزی کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔ جو مذہبی نعرے کبھی عقیدت وآستھا کےمظاہر ہوا کرتے تھے آج وہ نفرت وتعصب اور تشدد وتصادم کی علامت بن گئے ہیں۔ اِس مسلّمہ حقیقت کے باوجود کہ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جودوسرے مذاہب اوراُن کے رہنماؤں کی بےحرمتی کی ترغیب دیتا ہو۔ لیکن آج اُسی مذہب کے نام پر آئے دن دیگر مذاہب پر چھینٹا کشی کی جارہی ہے اور اُن کے قابل احترام رہنماؤں کی عزت پر حملہ کرو یا جارہا ہے۔ نپورشرما اورنام نہاد مذہبی لیڈر رام گیری جیسے افراد کو تیار کیا جاتا ہے اورپھراُن کے ذریعے یکے بعد دیگرے پیغمبر اِسلام کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہے۔ حالاں کہ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ نپورشرما اوررام گیری جیسے متشددین کے خلاف ہتک عزت کا مقدم چلایا جاتا اور قانون کی بالادستی قائم رکھی جاتی۔ لیکن اِس کے برخلاف زعفرانی ایم ایل اے نتیش رانےکی زبانی مزید یہ کہلوایا جاتا ہےکہ اگر مسلمانوں نے رام گیری کے خلاف کچھ بولا تو ’’وہ مسلمانوں کو اُن کی مسجدوں میں گھس کر ماریں گے۔‘‘ یہاں تک کہ قانونی طورپر اِحتجاج درج کرانے والوں کی آواز سننے کی بجائے غیرقانونی انداز میں اُنھیں کے مکانات منہدم کردیے جاتے ہیں۔ ایک طرف ملک کے مختلف علاقوں میں رام گیری کے خلاف تقریباً ۵۷-۵۸؍ ایف آئی آر درج ہوچکے ہیں پھر بھی اُسے قانون کی گرفت میں نہیں لیا جاتا ہے۔ وہیں دوسری محض ایک ہی دو ایف. آئی. آر. کی بنیاد پر مسلم قائدین کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے اور لاکھ جتن کے بعد بھی اُنھیں ضمانت نہیں دی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتابیں اور قلم-کاغذ دیا جانا چاہیے اُنھیں بم-بارود بنانے کے گُرسکھائے جاتے ہیں۔اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ سناتن دھرم جو اَمن وآشتی اور سب کے ساتھ پیار-پریم کا رشتہ بنائے رکھنے پر زور دیتا ہے، اُس کے ایک خاص ممبر ویبھوراوت کے پاس سے وافر مقدار میں بم۔بارود اور اُس کے اسباب ضبط کیے جاتے ہیں۔ چلتی ٹرین میں ایک ۲۴؍ سالہ اکثریتی نوجوان کے ذریعے ایک ۷۲؍ سالہ اقلیتی فرد کی پٹائی کردی جاتی ہے، لیکن ایسے اخلاق سوز حرکتوں پربھی زعفرانی جماعتوں کی زبانیں ہی گنگ رہتی ہیں، کیوں؟ یہ بڑا حیران کن پہلو ہےکہ اکثریتی نوجوانان اِس قدر زہریلی سوچ کے حامل کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ جن نوجوانوں کو ملکی وقومی تعمیر وترقی میں مصروف بہ عمل رہنا چاہیے وہ تخریب کاریوں میں اِس قدر ملوث کیوں دکھائی دہے رہے ہیں۔ اُن کے نرم ونازک فہم وفراست میں اِس قدر زَہرکون گھول رہا ہے کہ والد کی عمرکے انسان کی پٹائی کرہوئےاُن کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ آخر ہندوستان کی خمیر میں بڑوں کے ادب واحترام کا جو خوشگوارعنصرشامل تھا اُس پر کون ڈاکہ ڈال رہا ہے؟ تمام باشندگانِ ہند کواِس پہلو سخت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
مزید برآں گائےایک ایسا جانور ہے جسے اکثریتی طبقے کے نزدیک مذہبی درجہ حاصل ہے، لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُس کی مذہبیت کا احترام کیا جاتا اوراُس کے تحفظ کے نام پرکسی بھی طرح کی غیراِنسانی حرکتیں انجام نہیں دی جاتیں۔ لیکن ہائے افسوس کہ گائے کوصرف سیاسی ہتھکنڈےکے طورپر اِستعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ گائے کشی اور گائے اسمگلنگ کے نام پراَقلیت واکثریت کے درمیان منصوبہ بند دوریاں پیدا کی جاتی ہیں۔ ظالمانہ اورسفاکانے طریقے سے انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ آرین قتل سانحہ اِس کی ایک عبرت آموزمثال ہے۔ کاش کہ اَگراُسی وقت اقلیت واکثریت ایک ساتھ صدائے احتجاج بلند کیے ہوتے، جب اخلاق احمد، نعمان اختر، وارث، قاسم وغیرہ مسلم نوجوانوں کو گائے کشی کے فرضی جرم میں قتل کیا گیا، تو آج اکثریتی طبقے کا نوجوان آرین شرما گائے اسمگلنگ کے جرم میں نہیں مارا جاتا۔ بلاشبہ آرین شرما کے قتل کو کسی بھی نہج سے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بدبختانہ عمل ہے۔ لیکن اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اَب بھی اگربلاتفریق مذہب وملت باشندگانِ ہند ایک نقطے پر جمع نہیں ہوں گے تو اِس طرح کے سانحات رونما ہوتے رہیں گے اور ہمارے نوجوان، زعفرانی شرپسندوں کے شکار ہوتے رہیں گے۔
ایک اَلمیہ یہ بھی ہے کہ دستورِ ہندکی قسمیں کھانے والے بذات خود اُس کا اعلانیہ مذاق اُڑا تے ہیں کہ جس دستورمیں بلاتفریق مذہب وملت ہر شہری کو اُس کی پسند کے مطابق شادی کرنےکی مکمل اجازت ہے۔ اِس کے باوجود بھی اَگرکوئی مسلم لڑکا کسی غیرمسلم لڑکی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتا ہے تو’’لوجہاد‘‘ کے نام پراُسے سخت زدوکوب کیا جاتا ہے اورسلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی غیرمسلم لڑکا، کسی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اُسے گھرواپسی کا نام دیا جاتا ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُسے ہرطرح کا قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح اقلیتی طبقہ کو عوامی جگہوں پر مذہبی رسوم اداکرنے سے سختی کے ساتھ روکا جاتا ہے۔ حد تک تو یہ ہےکہ ایڈمنسٹریشن بذات خود گالیاں دیتی ہے اورغیراِنسانی تشدد کا مظاہرہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی ہے، اِس کے برخلاف اکثریتی مذہبی رسومات ادا کرنے کے سلسلے میں بطور خاص اِمداد بہم پہنچایا جاتا ہے۔ بلکہ اُس کے لیے ایڈمنسٹریشن کی طرف سے بالجبرعوامی جگہیں خالی کرائی جاتیں ہیں۔ سڑکیں بلاک کردی جاتی ہیں۔ منٹوں اورسکنڈوں کا سفرگھنٹوں میں طے کرنے کے لیے عوام وخواص کو مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیاربظاہربعض اکثریتی افراد کےلیے ایک خوش کن مرحلہ ہوسکتا ہے لیکن انصاف پسند نظرسے دیکھا جائے تواَیسا کرنا درحقیقت اقلیت واکثریت کوملکی وملی فلاح وبہبود کی طرف سے دھوکے میں رکھنا ہے،اُن کے درمیان قائم اِتحاد وہم آہنگی کو زَمین بوس کرنا ہے اور اُخوت و مروت کے مضبوط ومستحکم رشتے کو کمزورکرنا ہے۔
بہرحال خواہ اقلیت ہویا اکثریت، دونوں طبقات کو یہ فیصلہ کرنا ہےکہ وہ اَپنےملک ومعاشرے کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ موجودہ حالات سے مطمئن ہیں تو پھر اُنھیں اپنی تباہی وبربادی کے لیے بہرصورت تیار رہنا چاہیے۔ بصورت دیگراگرواقعی بےچینی وبےقراری محسوس کررہے ہیں توتمام تر نفرتی وانتشاری حالات سے چھٹکارہ پانے کے لیے اجتماعی طورپراُنھیں منصوبہ بند اقدام کرنا چاہیے، بالخصوص گائے کشی، لوجہاد، مساجد ومنادر، یکساں سول کوڈ، ہندو-مسلم اورمذہب وملت کے نام پر پیدا ہونے والے جملہ سیاسی وسماجی شرپسندوں کے خلاف سینہ سپررہنا چاہیےاورایک دوسرے کے نفع ونقصان کا خیال رکھتے ہوئے مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے