• منگل. اگست 19th, 2025

یہ زمانہ کروناوتی اور ہمایوں کی تلاش میں ہے!

Byhindustannewz.in

ستمبر 9, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن


کولکاتا اوراُترکھنڈ عصمت دری کانڈ کی آگ ابھی سرد بھی نہیں ہوئی کہ ضلع بستی میں ایک بار پھر ڈاکٹری شعبے نے شرمسار کیا کہ پہلے آکسیجن ماسک نکالا گیا اورپھر حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیمارشوہر کواِیمبولنس سے باہر پھینک دیا گیا جس کے باعث اُس کی موت ہوگئی۔ اُدھر دوسری طرف چلتی ایمبولنس میں خاتون کی عصمت دری کی کوشش کی گئی۔ جس ملک ومعاشرے میں رکشا بندھن جیسا پاکیزہ تہوارمنایا جاتا ہواورجس تہوارپربطورخاص بہنیں اپنے بھائیوں کی کلائی پر راکھی باندھتی ہوں۔ اُن کی صحت وسلامتی، لمبی عمراور کامیابیوں کے لیے دعائیں کرتی ہواوربدلے میں ہرقیمت پربہنوں کی عصمت وعفت کی حفاظت کا وعدہ کیا جاتا ہو۔ اُسی ملک ومعاشرے میں آئے دن آبرو ریزی کے واقعات رونما ہوں، یہ بڑا حیرت ناک پہلو ہے۔
رکشا بندھن سے متعلق بےشمارکہانیاں منسوب کی جاتی ہیں۔ اُن میں کچھ مذہبی نوعیت کی ہیں اورکچھ تاریخی نوعیت کی۔ تاریخی حیثیت سے دیکھا جائے تو رکشا بندھن اُس زمانے کی یادگار جب ہندوستان اپنے ریاستی عہد سے گزررہا تھا۔ ایک حکمران دوسرے حکمران پر اپنی برتری ثابت کرنے کے فراق میں لگا رہتا تھا۔ ایک ریاست دوسری ریاست پر اپنا قبضہ و اختیار کے پرتولتا رہتا تھا۔ یہی وہ زمانہ ہےکہ ریاست راجستھان کے راجا رانا سانگا کی موت ہوجاتی ہے اورچوں کہ اُس کا بیٹا کم عمر ہونے باعث تخت حکمرانی پر بیٹھنے کے لائق نہیں رہتا اِس لیے حکومت کی باگ-ڈوررانی کرونا وتی اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔چناں چہ اِسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گجرات کا حکمران بہادرشاہ، میواڑ پرفوج کشی کردیتا ہے۔ حملہ اِس قدرسخت ہوتا ہے کہ رانی کروناوتی کے پاس اُس کے دفاع کی سکت نہیں ہوتی، تواُس وقت کے مغل حکمران اورمغل سلطنت کا مالک ہمایوں سے مدد مانگتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی ایک راکھی بھی بھیجتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ رانی کروناوتی، ہمایوں کو اپنا بھائی مانتی ہے اور اِس مشکل گھڑی میں ایک بھائی کو اپنی بہن کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اِس طرح رانی کروناوتی کا یہ حذباتی پیغام ہمایوں کو بڑا متأثرکرتا ہےاورباوجودیکہ ہمایوں اُس وقت ایک دوسری مہم میں مصروف رہتا ہے، پھربھی فوراً وہ میواڑ کا رُخ کرتا ہے۔ لیکن ہمایوں کے میواڑ پہنچنے سے پہلے ہی کروناوتی کی فوج شکست سے دوچار ہوجاتی ہے اوررانی کرونا وتی اپنی عزت وعفت کی حفاظت کی خاطرخود کو نذر آتش کر لیتی ہے۔ پھرجب مغلیہ فوج کے پہنچنے کی خبر بہادرشاہ تک پہنچتی ہے تووہ اَوّل فرصت میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یوں تو ہمایوں رانی کروناوتی کو نہیں بچا پاتا، البتہ! اُس کے بیٹے وکرم جیت کو میواڑ کی تخت پر بحال کردیتا ہے۔ اِسی تاریخی واقعے کے بعد رکشا بندھن کو ہندوستانی کلچر میں ناقابل یقین کی حد تک فروغ حاصل ہوتا اَور پھر ہندو- مسلم کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی ہیں اور اِتحاد واتفاق میں مضبوطی بھی آتی ہے۔
اُسی تاریخی اوریادگارلمحے کوملکی سطح پر رکشا بندھن کی شکل میں بطور تہوار منایا جاتا ہے۔ اِس موقع پربہنیں رکشا بندھن کواَپنا فریضہ جان کر بڑی خوش اُسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔ اَپنے بھائیوں کے حق میں صحت وسلامتی اورلمبی عمروخیرکی دعائیں بھی کرتی ہیں۔ لیکن قابل غور پہلو یہ ہےکہ رکشا بندھن کے موقع پر اپنی بہنوں کی بہرصورت اور بہرحال تحفظ کی قسمیں کھانے والے یہ بھائی کیا واقعی اپنے کیے ہوئے وعدے کو نبھا رہے ہیں؟ کیا یہ بھائی، اپنی بہنوں کی عصمت وعفت کی حفاظت کررہے ہیں؟ جو بہنیں اپنے بھائیوں کی کلائیوں پر رکشا اِسی لیے باندھتی ہیں کہ جب کوئی اُن کی عصمت پر حملہ کرے، جب کوئی اُن کی آبروریزی کرے اور جب کوئی اُن کی جان لینے کی کوشش کرے تو اُن کے بھائی نہ صرف اُن کی حفاظت کریں گے بلکہ اپنی بہنوں کی عصمت وعفت کے لٹیروں کو اُن کے کیفرکردار تک پہنچائے بغیر دم نہ لیں گے۔ آخر بہنوں کی اُمیدوں پر یہ بھائی کب کھرے اُتریں گے؟ کیا بہنوں کی عصمتیں اور اُن کی عزتیں یوں ہی نیلام ہوتی رہیں گی اور اُن کے بھائی یوں ہی تماشائی بنے رہیں گے؟ رکشا بندھن کے ظاہرکیے گئے جذبات واحساسات محض قصوں اور کہانیوں تک ہی محدود رہیں گے اور صرف دیومالائی طور پر ہی فضاؤں میں رس گھولیں گے؟ زمینی سطح پر اُس کا ظہور کب ہوگا؟ کیا کروناوتی اور ہمایوں کے رشتے اور بندھن کے قصے محض تاریخی اوراق میں ہی پیوست رہیں گے؟ کیا موجودہ ہندوستان میں کروناوتی اور ہمایوں جیسے بھائی-بہن معرض وجود میں نہیں آئیں گے؟ کیا بلقیس بانو، تسنیم جہاں، آصفہ وغیرہ صرف ہمایوں کی بہنیں اور بیٹیاں ہیں؟ اور کیا نربھیا، ممیتا، آسام، مظفرنگر، ہاتھرس، مظفرپورشیلٹر ہاؤس وغیرہ کی بچیاں کروناوتی کی بہنیں اور بیٹیاں نہیں ہیں؟ ’’یہ ہماری بہنیں اوربیٹیاں ہیں اور وہ تمہاری بہنیں اور بیٹیاں ہیں‘‘ اِس طرح کے راگ کب تک الاپے جائیں گے؟ کیا باشندگانِ ہند کا ضمیر مرچکا ہے اور اُن کے اندر سے انسانیت ختم ہوچکی ہے، کیا ہمارا ملک ومعاشرہ پتھربن چکا ہےکہ جس کے پاس نہ کوئی حس ہے اور نہ کوئی حرکت؟
اگرباشندگانِ ہند کا جواب میں ’’ہاں‘‘ میں ہے تو ہمیں کسی سے کوئی شکوہ-شکایت نہیں۔ لیکن اگر جواب ’’ناں‘‘ میں ہے، توآئیں ہم لوگ اپنےاندر رانی کروناوتی اورہمایوں جیسے جدبات اندر پیدا کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اَٹوٹ اور پُراعتماد رشتوں کو دوام واِستحکام بخشیں۔ تمام ترتعصب وعناد اورمنافرت سے بالاتر ہوجائیں۔ اقلیت واکثریت کی خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائیں۔ ہم دم و ہم قدم ہوجائیں اورکسی امتیاز وتفریق کے بغیر بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت و عفت کے لیٹروں کو اُن کے کیفرکردار تک پہنچا دیں۔ جب ہم اپنے ملک ومعاشرےاوربہنوں و بٹیوں پر نگاہِ بد ڈالنے والےانگریزی سامراج کا قلعہ قمع کرسکتے ہیں توآج کے درندوں کو نیست ونابود کیوں نہیں کرسکتے؟ بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہندو-مسلم کی عینک سے اپنے ملک وملت کو دیکھنا چھوڑدیں۔دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں میں اپنی بہنیں اور بیٹیاں تلاش کرنا شروع کردیں، تو نہ کسی کی بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوں گی اور نہ ہی کسی کی بیٹیوں کی عزتیں داغدارہوں گی۔ ورنہ تمام تر حصولیابیوں اورترقیوں کے باوجود نہ کسی کی بہنیں محفوظ رہیں گی اور نہ ہی کسی کی بیٹیاں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے