ڈاکٹر جہاں گیر حسن
عالمی سطح پر ہندوستان کا چمکتا دمکتا جمہوری چہرہ اب زعفرانی فکر کے قالب میں ڈھلتا جارہا ہے۔ زعفرانی فکر ونظرکیا ہے؟ تو جہاں تک ہم نے اِسے سمجھا اورجانا ہے، وہ یہ کہ زعفرانی فکرونظر، نصرانی اور یہودی فکرونظرکا استعارہ ہے۔ کیوں کہ جس طرح یہودیوں اور نصرانیوں نے اپنے اصل مذہبی افکاروقوانین میں بےدریغ تحریف کیا اوراُسی تحریف شدہ چیزوں کو مذہبی رنگ دے کر اپنی دنیوی حرص اوراقتداری ہوس پوری کی اوراپنی رعایا ومعتقدین کو زعفرانی سیاست کے نام پرفریب دیتے رہے، اُنھیں ڈراتے رہیں۔ یہاں تک کہ اپنے مفاد کی حصولیابی کے لیے بذات خود متشدد نہیں ہوئے بلکہ اپنی رعایا کو بھی حیوانیت و درندگی پر اُکسایا اور اپنا اُلّو سیدھا کیا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی وملی سطح پرامن وآشتی اوراُخوت ومروت کی جگہ بےمروتی، نفرت و کدورت اور تعصب وعناد نے لے لی۔ اگر کوئی اِن باتوں کو محسوس ومعلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے حضرت یوسف اورحضرت سلیمان کی حکومت کے احوال وکوائف اوراُس میں پیش آنے والے مشکلات ومسائل کو ضرورپڑھنا چاہیے، تاکہ وہ قدیمی حکومت خواہوں کی شاطربازیوں کوبخوبی اور بہ آسانی جان سکے کہ یہودونصاریٰ مذہب کے نام پر اپنےمعتقدین کی خالص عقیدت و محبت کا جنازہ کس طرح نکالتے تھے !!
اِس پس منظرمیں دیکھا جائے تو ہندوستان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کیوں کہ ہندوستان کے سیاسی قائدین اور حکومت برداران بھی، زعفرانی مذہب کے نام پر اپنے معتقدین کو زیر وزبر کرنے میںیقین رکھتے ہیں اور اُسی کے سہارے بساط سیاست پراپنا رنگ جمانے کے حق میں ہیں اورمستقبل میں بھی یہی طریقہ اختیارکرنےکے لیے پرتول رہے ہیں۔ پھراِسی پر بس نہیں بلکہ عدالتی نظام ودستور جسے جمہوریت کی جان کہا جاتا ہے اُسے بھی زعفرانی رنگ میں رنگنے کی تمام ترکوششیں وہ کررہے ہیں اوریوں عدالتی نظام ودستور کو بےجان کردِینے پر سارا کا سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔ بالخصوص اکثریت واقلیت کے مابین جملہ مسائل ومقدمات میں یہ سب باتیں واضح طورپر دیکھنے میں آتی ہیں۔ آج برسراقتدار جماعت جس مضبوطی کے ساتھ مرکز میں قائم ہے اِس کے پیچھے بھی تعصب وتشدد اورنفرت و کدورت آمیززعفرانی فکر سرگرم عمل ہےاور باوجودیکہ دستور ہند کے مطابق مذہب اور ذات-پات کے نام پرووٹ مانگنا قانونی جرم ہے مگرزعفرانی لیڈران بلاخوف وخطراعلانیہ طورپر مذہب اور ذات-پات کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں۔ اِس کی تاریخی اور واضح مثال دہلی کے ایک انتخابی اسٹیج پرآج سے دو-تین سال پہلے دیکھنے کو ملی تھی جب اکثریت کومخاطب کرتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ نے یہ جملہ کہا تھا کہ’’ووٹ کا بٹن اِس زور سے دبانا کہ اُس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچ جائے۔‘‘ حالاں کہ مذہب وبرداری کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت سزا ملنی چاہیے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بڑی شان سے مرکز سے لےکر ریاست تک اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ بلکہ آج حد تو یہ ہےکہ موجودہ عہد سیاست میں بالخصوص ذات-پات اورمذہب کی بنیاد پر مردم شماری بھی کی جاتی ہے اور پارلیمانی و اِسمبلی حلقے اور اُس کے دائرہ کاراور حدود بھی اِسی کے پیش نظر متعین کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اگرکسی ایک حلقے میں ۵۰؍فیصد اکثریت ہے اور۵۰؍ فیصد ہی اقلیت بھی، تو اَیسے حلقوں میں اکثریت اعداد وشمارکو چھیڑچھاڑ کیے بغیراقلیت اعداد وشمارپر شب خون مارا جاتا ہے۔ بایں طورکہ اقلیت کے نصف حصے کو اُس کے حلقے سے جدا کردیا جاتا ہے اورپھراُس حصے کو پڑوسی حلقے سے مربوط کردیا جاتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس حلقے میں اکثریت واقلیت دونوں اعداد وشمارکے لحاظ سے برابر ہوتےہیں اِس کے باوجود اقلیت، اقلیت ہی رہ جاتی ہے۔ حالات اِس قدرابتراوراَندوہناک ہوچکے ہیں کہ بلاک کی سطح سے لے کر ضلعی سطح تک تقریباً۹۰؍ فیصد پولیس انتظامیہ بھی زعفرانی رنگ میں مکمل طورسے رنگے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ تجربات شاہد ہیں کہ ایڈمنسٹریشن وانتظامیہ عوامی معاملات و مقدمات بعد میں سنتے ہیں اور فریقین کی مذہبی پوزیشن پہلے دیکھتے ہیں اور پھراُسی اعتبار سے آگے کی ساری قانونی کارروائی شروع کی جاتی ہے۔
۲۰۱۴ء کے بعد ہندوستانی سیاست پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ سیاست میں جمہوریت برائے نام رہ گئی ہے۔ ۲۲؍ جنوری کوآرایس ایس سپریمو کا یہ کہنا کہ ’’نریندر مودی جی بہت ہی بڑے تپسوی ہیں‘‘ بہت ہی معنی خیز جملہ ہے۔ ایسا کہنے میں اُن کا مطمح نظر کیا تھا یہ تو ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اُُنھوں نے ایسا اِس لیے کہا، تاکہ ہندوستانی عوام یہ باتیں کان کھول کر سن لیں کہ جمہوریت نے آج پورے طورسے زعفرانی چوغہ پہن لیا ہے، چناں چہ ہندوستان میں اب جمہوری عینک سے دیکھنے کی روایت بند کردیں اورزعفرانی عینک سے دیکھنا شروع کردیں۔ گویا آئندہ انتخابات میں مسائل وکارگزاریوں کی بنیاد پر ووٹنگ نہیں ہوگی بلکہ زعفرانی فکر ونظر کی بنیاد پر ووٹنگ ہوگی۔ مزید واضح رہے کہ ہندوستانی عوام کی قسمت کے فیصلے بظاہر کورٹ کچہری میں توہوں گے لیکن فیصلے کی گھڑی زعفرانی فکر ونظر کو ہی برتری حاصل رہےگی۔ کیوں کہ عدالتی اصول وضوابط اگر جمہوری طورپر طے ہوں گے تو ’’رام للا‘‘ جیسے زعفرانی مقاصد کا حصول کیسے ہوگا؟ اِس کا منھ بولتا ثبوت یہ ’’رام للّا کا افتتاح‘‘ہے کہ جمہوری عدلیہ کی روسے’’مندر توڑکرمسجد نہیں بنائی گئی، پھر بھی زعفرانیوں نےمسجد توڑ دی اور غیر قانونی طور پر مسجد گرانے والے زعفرانیوں کو ناقابل سزا سمجھا گیا۔ یہاں تک جہاں آج ’’رام للا‘‘ براجمان کیا گیا ہے۔ قانون کی نظر میں وہ ’’رام للا‘‘ کی جائے پیدائش ہے ہی نہیں، پھر بھی آستھا کے نام وہ جگہ ہندوؤں کے نام کردی گئی۔ آج کل گیان واپی مسجد اور متھرا عیدگاہ، دو بڑے زعفرانی مدعے سراُٹھائے کھڑے ہیں اوراِس جانب زعفرانی پہل بھی کردی گئی ہےکہ سروے کے نام پراِن دونوں مقامات پر کھدائی کی جائےگی اورپھرایک طویل مگرمتعین مدت تک عدلیہ میں بحث چلے گی اور ایک دن وہ آئےگا کہ بابری مسجد کے طرز پراِن دونوں مقامات کو بھی آستھا کے نام پرقربان کردیا جائےگا۔
مزید برآں یہ کہ اب تک تو محض براسراقتدارجماعت ہی زعفرانی فکرونظر کو پروان چڑھا رہی تھی لیکن اب تونوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اپنے آپ کو سیکولرسمجھنے اور کہنے والی سیاسی جماعتیں بھی زعفرانی آگ سے کھیلنے میں یقین کرتی نظرآرہی ہیں۔ اِس کی بہترین مثال دہلی کے وزیراعلی ہیں جنھوں نے باضابط اعلان کردیا ہے کہ اب دہلی میں بھی منظم طورپر پوجا-پاٹ کا اہتمام کیا جائےگا۔ نیز ابھی حالیہ دنوں میں وزیراعظم کا ’’پران پرتشٹھا‘‘ کی نمائندگی کرنا اوربہارگورنر ہاؤس میں۲۸؍ جنوری کو حلف برداری کےموقع پر ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ گونجنا بھی اِسی قبیل سے مانا جانا چاہیے۔ اِس کے علاوہ اُترپردیش کے وزیراعلی کی سرگرمیاں اور اُن کے قانونی اقدام بھی اقلیت ستانی اورزعفرانی فکرونظر کےثبوت میں انتہائی اہم ہیں کہ اکثریت میں سے کوئی فرد اگر بڑاسے بڑا جرم کرجائے تو بھی اراکین حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتا، لیکن اگر اقلیت کے کسی فرد پر محض شک ہوجائے تو اُس کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے، بلکہ اہل وعیال کے ساتھ اُس کے اَحباب واقارب تک سبھی کو سخت قانونی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اُس کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اقلیتی افراد کوزَعفرانی جلوس پر تھوکنے کے محض شک میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ تو صرف اِس لیے کہ مشکوک ومشتبہہ شخص، اقلیت اورایک خاص مـذہب سے متعلق ہے اور زعفرانی اہل فکرونظرکو یہ بات برداشت نہیں کہ اکثریت کے بالمقابل اقلیت آزادانہ طورپر تھوک بھی سکے۔ گویا جمہوری سیاست کے بالمقابل زعفرانی سیاست بڑا آسان تجربہ ہے۔ اِس میں محنت ومشقت کم کرنی پڑتی ہے اور منزل ومراد بہت جلد مل جاتی ہے۔ زعفرانی سیاست کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ معتقدین میں سے کسی کا بھی ذہن روزگار وملازمت، کاروباروتجارت، صنعت وحرفت، تعلیم وتعلّم، صحت وتندرستی، ملکی فلاح وبہبود، ترقیاتی عمل، اشیائے خوردنی کی گرانی اور دیگر حوائج ضروریہ کی طرف نہیں جاتا، اورزَعفرانی صاحبان اقتدار یہی توچاہتے ہیں کہ عوام الناس اور ملکی رعایا اِن تمام مسائل حیات سے دور بہت دور رہیں۔
القصہ! زعفرانی سیاست بہت تیزی سے جمہوری سیاست پر حاوی ہوتی جارہی ہے اور آئین ہند کی جگہ آستھا اور جبروتشدد اپنی پوزیشن مضبوط کرتا جارہا ہے۔ جمہوری عدلیہ اورجمہوری دستور کے روبرو آستھا کی جیت ہورہی ہے اور حق وصداقت اورعدل و انصاف کے بالمقابل کذب وبہتان اور دروغ گوئی کا سربلند ہورہا ہے۔ ملکی ومعاشرتی سطح پر زعفرانی مذہب کے بہانے جبروتشدد میں اضافہ ہورہا ہے اور انسانیت و اَخلاقیات کی ساری حدیں پار کی جارہی ہیں۔ دستور ہند کے باغی، زعفرانیوں کے ہیروہوتے جارہے ہیں اور دستور ہند پر یقین رکھنے والے، زعفرانیوں کے باغی۔ کیا اِن تمام ترواضح اشاروں سے نہیں لگتا کہ زعفرانی سیاست مضبوط تر ہوتی جارہی ہےاور جمہوری سیاست دم توڑ رہی ہے؟
