ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اس میں دو رائے نہیں ہے کہ اللہ اپنے دین کا کام جب چاہے اور جس سے چاہے لے لیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ جس سے دین کا کام لے رہا ہے وہ مومن و مسلمان ہو بلکہ ایک سخت سے سخت کافر کے ذریعے بھی وہ اپنے دین کی اہمیت و معنویت کو اہل دنیا کے دلوں پر منکشف فرما دیتا ہے۔ اس سلسلے میں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایمانداری کے ساتھ ہم اپنے آس-پاس کے حالات کا جائزہ لیں تو اس کا بخوبی احساس ہوگا کہ جس قدر ہم لوگ اپنے دین کی خاطر اور اپنی قوم و معاشرے کی خاطر بیدار ہوئے ہیں وہ بیداری اس سے پہلے ہمارے اندر ہرگز ہرگز نہیں تھی، اور ہمیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ یہ ہمارے اندر موجودہ دینی اور قومی و معاشرتی بیداری مومن و مسلم قائدین یا دینی سربراہان کے ذریعے نہیں آئی ہے بلکہ ہمارے غیر نے ہی ہمیں اپنے اندر یہ بیداری لانے پر مجبور کیا ہے۔ یعنی اللہ نے غیروں کو ہمارے اوپر مسلط کرکے ہمارے اندر یہ بیداری پیدا کی ہے۔ اسی طرح عالمی پیمانے پر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تقریبآ تمام دنیا، ہمہ دم ہمیں اور ہمارے دین کو مٹانے کے درپے نظر آرہی ہے۔ خواہ جدید تعلیم کے پردے میں ہو، خواہ حقوق انسانی کے پردے میں خواہ حقوق مساوات کے پردے میں ہو، خواہ جہاد کے پردے میں ہو یا پھر یکساں سول کوڈ کے پردے میں۔ بہرحال ہماری اور ہمارے دین کی بیخ کنی تمام تر کوششیں ہمہ جہت جاری و ساری ہیں۔
عالمی سطح پرنظردوڑائیں تو شاید ہی ہمارے ساتھ چند گنے چنے افراد کھڑے نظر آئیں ورنہ ہمارے غیر کی اکثریت ہمارے وجود کو یکسر تہس-نہس کردینا چاہتی ہے اور ہماری شناخت کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے۔ یعنی ساری دنیا ہمیں ہمارے دین کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا چاہتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے اغیار یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اگر کوئی قوم ہے تو وہ ہماری ہی قوم ہے جو صحیح طور پر پوری دنیا میں امن و آشتی اور عدل و انصاف کا ماحول قائم کرسکتی ہے۔ وہی ہر فرد بشر کو کسی عناد و تعصب کے بغیران کے حقوق دلاسکتی ہے۔ وہی پوری انسانی برادری کو صحیح اور درست راستے پر لا سکتی ہے۔ وہی ہم میں سے ہر انسان کو مختلف گمراہیت سے نکال کر ایک ربانی ہدایت کی راہ پر چلا سکتی ہے اور وہی اسے اس فضا میں لے جاسکتی ہے جہاں ایک انسان کو محض ظاہری طور پر ہی نہیں بلکہ باطنی طورپر بھی طمانیت و متانت کا حصول ہوتا ہے اورجہاں تمام تر خلجان سے نجات دہی کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والے ایک جاودانی سکون کا احساس کرایا جاتا ہے۔ جہاں اختلاف میں بھی انوکھے اتحاد کا لطف حاصل ہوتا ہے۔ جہاں نہ گورے پن کے سبب کالے پر، نہ اعلی برادری کے سبب ادنی برادری پر اور نہ امیری کے سبب غریبی پر فوقیت حاصل ہوتی ہے بلکہ اگر کسی کو کسی پر کچھ بھی فوقیت حاصل ہوتی ہے تو وہ محض قلب کی پاکیزگی اور خوف ربانی کے سبب ہوتی ہے اور یہاں گورے، کالے۔اعلی، ادنی اور امیر، غریب سب برابر ہیں:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اور یہ سبق ہم اور آپ جیسے مسلمانوں کے طرز حیات سے نہیں ملتا ہے بلکہ یہ سبق اس انسان و مسلمان کے طرز حیات سے ملتا ہے جو بمطابق قرآن اپنی حیات مستعار کو بسر کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج جو کوئی بھی دین کی پناہ میں آرہا ہے یا پھر دین کی عظمت و رفعت کا اقرار کررہا ہے تو اس میں ہمارے اور آپ جیسے مسلمانوں کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ اس میں مکمل رول اگر کسی کا ہے تو محض کلام ربانی قرآن مجید کا ہے کہ اسی کے مطالعے کی روشنی میں ہمارے مخالف ترین اور دنیا کی عظیم ترین ہستیاں دین واپسی کررہی ہیں۔ ورنہ تو ہم جیسے مسلمانوں کے طرز حیات سے اغیار کو ہدایت ملنا تو دور کی بات ہے، اس کے برعکس ہمارے عمل و کردار سے ہمارے بیچ رہنے والے بھی ملحد و بے دین ہوتے جارہے ہیں۔ بلکہ ہمارا کردار و عمل اس قدر پستی کا شکار ہوچکا ہے کہ ہمارے اپنے بچے اور ہمارے خونی رشتے دار بھی دین بیزاری اور الحاد کے شکنجے میں کستے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کس درجہ افسوسناک بات ہے، ہم میں سے ہر با شعور و عقلمند پر واضح ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ قرآن جیسی عظیم ہدایت دینے والی کتاب، جس پر ہمارا ایمان ہے اور اس پر عمل کرنے کے ہم دعویدار بھی ہیں لیکن ہم راہ راست پر قائم کے رہنے بجائے بے راہ رو ہوتے جارہے ہیں۔ جب کہ اس کے بر خلاف جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے وہ اسی قرآن کے مطالعے کے بعد نور ایمان سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ چناں چہ یہ قرآن ہی کا اعجاز ہے کہ دنیائے مسیحیت و عیسائیت کا مشہور و معروف پادری ہیلیریون ہیگی نے آج اصل دین کی طرف واپسی کی ہے، جنھیں آج کے بعد ہم اور آپ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا "سید عبد اللطیف” کے نام مخاطب کرےگی۔
سید عبداللطیف ایک امریکی پادری ہیں جو پہلے روسی آرتھوڈوکس راہب تھے اور اپنے پیروکاروں میں مہربان، مقدس اور اپنے غیر معمولی وصف صبر و تحمل کے سبب کافی معزز تھے۔
دین واپسی کے بعد انھوں نے انتہائی وضاحت اور دو ٹوک انداز میں جو بات کہی ہے وہ ساری دنیا کے لیے بالعموم اور مسلم دنیا کے لیے بالخصوص ایک سبق اور نصیحت ہے۔ اپنے بیان میں وہ کہتے ہیں کہ "میرے پاس کلمہ شہادت پڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کب تک منافق بن کر زندگی گزارتا اور قلبی طور پر مسلمان ہوتے ہوئے کب تک محض زبان سے عیسائیت کی تبلیغ کرتا۔ کب تک لوگوں کو دھوکا اور فریب میں مبتلا رکھتا۔” مزید وہ کہتے ہیں کہ "دین واپسی کے اعلان کے بعد چوبیس گھنٹہ مسلسل میرے موبائل کا رنگ ٹون بج رہا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے بڑی بڑی مسلم شخصیات کے تہنیتی فون آرہے ہیں۔ ڈھیر ساری مبارکبادیاں مل رہی ہیں، خوش آمدید اور استقامت دین کی دعاؤں سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ان باکس بھر چکے ہیں۔ ہمارے استقبال میں گھر کے باہر پھولوں کے گلدستے اور والہانہ عقیدت مندیوں کے پھول نچھاور کیے جارہے ہیں، اور یہ تمام چیزیں ہمارے لیے نئی اور اطمینان بخش ہیں۔” اس کے ساتھ ہی دنیائے عیسائیت میں برپا اضطراب و بے چینی پر وہ کہتے ہیں کہ آپ سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ "میں نے کوئی نیا مذہب اختیار نہیں کیا ہے، بلکہ میں سیدنا ابراہیم و موسی اور عیسی علیہم السلام کے دین کی طرف لوٹا ہوں جو میرا اصل دین ہے۔ اس لیے برادران مسیحیت کو قلق و اضطراب اور بے چینی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔”
خلاصہ یہ کہ آج کے حالات میں جناب سید عبداللطیف کا یہ بیان جہاں ہمارے لیے بڑا ہی نیک فال معلوم ہوتا ہے وہیں ان کا اس طرز پر دین واپسی کرنا اور اپنے اندر پوشیدہ منافقت کو پہچاننا ہم سب کے لیے ایک سبق اور مقام عبرت ہے کہ ہمارے اغیار کو، اور ہمارے دین سے باہر رہنے والے انسانوں کو تو یہ احساس ہورہا ہے کہ منافقت اچھی بات نہیں۔ دھوکہ اور فریب دینا مناسب نہیں اور وہ اپنی اصل کی طرف واپس بھی ہورہے ہیں اور حقانیت کو بلا خوف و خطر قبول بھی کررہے ہیں لیکن ہم جو دینداری کے دعویدار ہیں اور حقانیت کے اعلانیہ پرستار ہیں۔ آخر کب اپنے اندر چھپی ہوئی منافقت سے توبہ کریں گے اور کب ہم صراط مستقیم پر چلنے کا اعلان کریں گے؟