ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ہندوستان کی سرزمین جہاںایک طرف لڑکیوں کو لکشمی ماناجاتا ہے تو دوسری طرف عورتوں کو دُرگا، سیتا اورسرسوتی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ اُسی سرزمین ہندوستان پرعورتوں اور بچیوں کی عصمت داری کی راہیں اِس قدر آسان کیوں ہیں کہ جو چاہے، جہاں چاہے اور جب چاہے جواں سال عورتوں لے کرکمسن بچیوں تک کی عصمت دری کردیتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہوتی ہےکہ مجرمین کوکیفرکردار تک پہنچایا گیا یا نہیں اور متأثرہ افراد کو اِنصاف مل سکا یا نہیں، اِس سلسلے میں باز پُرس کرنے والاکوئی نظر نہیں آتا۔ ورنہ کیا سبب ہے کہ عصمت دری کا ایک دلدوزسانحہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اَژدہے کی مانند ہمارےسماج ومعاشرے کو نگلنے کے لیے منھ پھاڑے کھڑارہتا ہے۔ اِس کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ کولکاتا شہر میں عصمت دری کے مجرم وقاتل کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ لیکن اِسی بیچ اُتراکھنڈ میں ایک لیڈی نرس کی اجتماعی آبرو ریزی، مہاراشٹر کے بدلاپور میں کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اورآسام میں ٹیوشن سے واپس ہورہی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی درندگی کے نئےسانحے انجام دیےجاچکے ہیں۔ آخر یہ سب کب تک چلتا رہےگا اوراِن سانحات کے پیچھے کون سے اَسباب وعوامل کارفرما ہیں، اُن پر کب اور کون غور وفکر کرےگا؟ اب تک جس قدربھی عصمت دری اورقتل کے سانحات رونما ہوئے ہیں کیا وہ ہماری آنکھیں کھولنے کافی نہیں ہیں ؟
مہاراشٹرکے بدلاپورمیں دوکمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، آسام میں طالبہ کے ساتھ اجتماعی درندگی اوراُتراکھنڈ و شہر کولکاتا کی متأثرہ لیڈی ڈاکٹر ونرس کے ساتھ عصمت دری اورقتل کاپے درپے سانحہ رونما ہونا، یہ بتاتا ہے کہ ملک میں ہرچہار جانب جنگل راج قائم ہے اورحیوانی ذہنیت کی گہری حکمرانی ہے کہ مسلسل ایک کے بعد ایک آبروریزی اورقتل کے واردات سامنے آرہے ہیں۔ آخر تمام ترقوانین کے باوجود مجرمین پرکچھ اثر ہوتا دِکھائی کیوں نہیں دے رہا ہے؟ اِس کے پیچھے جواَصل راز کارفرما ہے اُس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اَب سے پہلے ۲۰۰۲ء میں بلقیس بانو عصمت دری کی شکار ہوئی۔ نربھیا کانڈ کسے یاد نہیں۔ ۲۰۱۲ء میں دہلی کے اندر چلتی بس میں ایک میڈیکل کی طالبہ کی عصمت دری کی گئی۔ کشمیر کےکھٹوعہ علاقے میں ایک آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری کرنےکےساتھ اُس کا قتل کردیا گیا۔ مظفر پو، بہار کے ایک شیلٹر ہاؤس میں رہنے والی ۲۹؍بچیوں کی مسلسل عصمت دری کی جاتی رہی۔ اُترپردیش کےہاتھرس کانڈ میں ایک چودہ سالہ لڑکی کی عصمت دری کی گئی اورپھر اُسے قتل کردیا گیا۔ لیکن اِن تمام سانحات میں ملوث مجرمین کے خلاف کس حد تک انصاف پر مبنی کا رروائی کی گئی، یہ دیکھنا اہم ہے۔ تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود قانونی عملہ سے لے کر صاحبان ِاقتدارتک کس ناجائز طریقے سےمجرمین کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کرتے رہیں اور آج بھی کس جانبدارانہ انداز میں آبروریزی کے اِن مقدمات کوہلکا کیا جارہا ہے، یہ سب جگ ظاہر ہے، پھر کس بنیاد پر مجرمین عبرت لیں گے؟
علاوہ ازیں عصمت دری اور قتل کےبےشمارسانحات ہیں جوسامنے ہی نہیں آتے۔ بعض لڑکیاں/عورتیں بےعزتی کے خوف سے ظاہر نہیں کرپاتیں۔ کچھ والدین اِس ڈر سے اِس طرح کے سانحات کو اُجاگر نہیں کرتے کہ اُس کا اَثر براہِ راست اُن کی دیگر بچیوں کی عائلی زندگی پرہوسکتا ہے اور اُن کی شادی-بیاہ میں روکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بعض سرپرست اور گارجین اِس لیے اِس طرح کے سانحات کا ذکر نہیں کرتے کہ اگر وہ کسی سے کہہ دیں تو اُنھیں اور اُن کے اہل وعیال کو جان کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اکثر اوقات عصمت دری اور قتل کے مجرمین کی طرف سے باضابطہ جان ومال اور مزید عصمت دری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ لہٰذا متأثرین، سماجی ومعاشرتی پریشراور بدنامی کے خوف سے قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کرپاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ متأثرین معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں، یا پھر اُن کے پاس اُس قدر اَثرورسوخ نہیں ہوتا جس قدرکہ اثرورسوخ مجرمین کے پاس ہوتا ہے اِس لیے مجرمین کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرپاتے۔ حد تو یہ ہے کہ بدعنوان پولیس اورعدالتی نظام میں سست روی کی وجہ سےبھی مجرمین کو بروقت/معقول سزا نہیں مل پاتی اور متأثرہ اَفراد کو محرومی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، چناں چہ اِس نوع کی محرومیاں و نااُمیدیاں اور دقتیں بھی متأثرین کو اِحساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہیں اور بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کرپاتےاور اِن سب باتوں کا فائدہ براہِ راست مجرمین کو پہنچتا ہے۔
مزید عصمت دری اور قتل جیسے سنگین واقعات کی تہہ میں پہنچنے پر یہ عقدہ بھی کھلے بغیر نہیں رہ پاتا کہ ملکی وصوبائی اورضلعی سطحوں پر جس قدر عورتوں کے ساتھ عصمت دری اور قتل کے سانحات پیش آئے ہیں اُن سب میں ناقابل یقین حد تک زیادہ ترتعلیم یافتہ افرادملوث نظر آتے ہیں، یامذہبی بنیادوں پر منافرت اورمعاندانہ وانتقامانہ جذبے کے تحت عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے اور پھراُنھیں قتل کردیا جاتا ہے، یا پھربزعم خویش اَشرافیہ طبقے اِس طرح کی حیوانی حرکتیں انجام دیتے ہیں، کیوں کہ خودساختہ اشرافیہ کی نظر میں پسماندہ عورتوں کی پیدائش ہی اُن کی جنسی تسکین کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا نربھیا اور کولکاتا سانحہ کے مجرمین میں تعلیم یافتہ افراد سرفہرست نظر آتے ہیں، بلقیس بانو گجرات، آصفہ کٹھوعہ اور تسنیم جہاں اُترا کھنڈ کے مجرمین میں مذہبی عصبیت کے پرستار اَفراد نمایاں طورپردکھائی دیتے ہیں اورہاتھرس ومظفرپورسانحہ میں خودساختہ اشرافیہ کے افرادواضح طورپرملوث پائے جاتے ہیں۔ اِس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں عورتوں کی آبروریزی اور قتل کے اصل مجرم ہندوستان کے تعلیم یافتگان، مذہبی متعصبین اورخودساختہ اشرافیہ طبقات ہی ہیں۔ پھراِسی پربس نہیں کہ یہ تینوں طبقے محض عصمت دری اورقتل کےواردات انجام دیتے ہیں بلکہ یہ سب مجرمین کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں اوراُنھیں محفوظ رکھنے کے لیے تمام تر کوششیں بھی کرتے ہیں۔ بیشتر قانونی عملہ اَیسے سانحات کو بالخصوص اقلیت واکثریت اور اَعلیٰ وادنیٰ کی عینک سے دیکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہاتھرس اور اُتراکھنڈ وبدلاپور کے سانحے اِس کی زندہ مثالیں ہیں کہ ہاتھرس میں متأثرہ لڑکی چوں کہ پسماندہ برادری سے متعلق تھی اِس لیے اُس کے مقدمے کواَعلیٰ وادنیٰ کے پردے میں دیکھا گیا اور اُتراکھنڈ وبدلاپورمیں متأثرہ نرس وکمسن بچیاں چوں کہ اقلیتی طبقے سے متعلق ہیں اِس لیے سیاسی وسماجی سطح پرآج اُن کے حق میں آواز بلند کرنے والاکوئی نہیں۔ بالآخر عدلیہ کو بذات خود قانونی عملہ کی جانبداری اورلاپرواہی جیسے رویے پر نوٹس لینا پڑرہا ہے۔ ممکن ہے کہ اِس طرح کے رویے کچھ متعصبین ومتنفرین کے لیے مذہباً تسکین بخش ثابت ہوں، لیکن اجتماعی طورپر ملک وقوم کےلیے یہ ہرگز اِطمینان بخش ثابت نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ اگرآج پسماندہ برادری کی عصمت تار تار ہورہی ہے تو کل اعلیٰ برادری کی عصمت بھی تارتار ہوسکتی ہے، اگر آج ایک طرف تسنیم جہاں کی آبروریزی کی جارہی ہے تو کل لیلاوتی اوررُکمنی دیوی کی بھی آبروریزی کی جاسکتی ہے اور اِس تعلق سے نربھیا، کولکاتا اورآسام میں رونما ہوئےآبروریزی کے سانحے انتہائی عبرت آموزہیں۔
بہرحال اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عصمت دری اورقتل جیسے سانحات کا تسلسل سے رونما ہونے کو اَقلیت واکثریت اور اعلیٰ وادنیٰ کی نگاہ سے دیکھنا ہی آج اِنتہائی خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ بلکہ آج ملک وقوم کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کو کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا جس طرح سے آج مذہب وملت اور ذات-برداری کی تفریق وامتیاز کیے بغیر جواں سال عورتوں اورکمسن بچیوں کی عصمت دری کی جارہی ہے اور اُنھیں قتل کردیا جارہا ہے۔ اُسی طرح تمام باشندگانِ ہند کو چاہیے کہ ہرطرح کے تعصب وعناد سے اوپر اُٹھتے ہوئے عصمت دری اور قتل جیسے سانحات کے خلاف دیوار چین بن جائیں۔ قانونی، تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی ہرسطح پر نتیجہ خیز اِصلاحات کے سلسلے میں ملک گیر بیداری پیدا کریں۔ عوام وخواص کی تعلیم وتعلّم کے ساتھ اُن کی اَخلاقی تربیت اور فکری پاکیزگی پرخصوصی توجہ دیں۔ کیوں کہ تعلیم وتعلّم کے ساتھ پاکیزہ اخلاق وافکار سے مزین ایک انسان جہاں اپنے ملک کو تعمیروترقی سے ہمکنار کرتا ہے وہیں اپنے تمام باشندگان کو وقار وعزت سے جینے کا گُر بھی سکھاتا ہےاور اُس کا حق بھی دیتا ہے۔ ورنہ بصورت دیگرمذہب وفرقہ پرستی، اعلیٰ وادنیٰ اورمحض تعلیم وتعلّم کی آڑ میں حیوانیت کا بازار گرم رہےگا، عورتوں کی عصمتیں لٹتی رہیں گی اور سیتا کے دیش میں خود سیتائیں ہی غیرمحفوظ رہیںگی۔

