• منگل. اگست 19th, 2025

ڈاکٹراعظم کُریوی کی افسانہ نگاری

Byhindustannewz.in

اگست 27, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن


ڈاکٹراعظم کریوی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وثقافت کا نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ اُردواَفسانے کی تشکیل وفروغ میں اُن ایک اہم اوربنیادی کردارہے۔ اِنھوں نے منشی پریم چندجیسے اہم افسانہ نگاروں کے درمیان بھی اپنی ایک منفرد اورعلاحدہ شناخت قائم کی۔ لیکن ایسے نمائندہ افسانہ نگار کے ساتھ اُردو محققین نےجس غیرعلمی وغیرتحقیقی رویے کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ایک تو اُن کی افسانوی کی خدمات کو نظر انداز کردیاگیا اوردوسرے اگر کسی نےاُن پرکچھ لکھا بھی تو محض خانہ پُری کے لیے۔ یہاں تک کہ اَعظم کُریوی کے اصل نام کے سلسلے میں اُردو کے ایوارڈ یافتہ محققین بھی سخت تسامح کے مرتکب ہوگئے اورغالباً’’اعظم کُریوی‘‘ پر قیاس کرتے ہوئے اُن کا نام’’اعظم حسین‘‘ تجویز کرلیا اوراِسی پر بس ہوتا تو غنیمت تھا بلکہ اپنی ضخیم ترین تحقیقی کتابوں میں اِسی مجوزہ نام کوشائع ذائع بھی کردیا۔ جب کہ ڈاکٹر اعظم کُریوی کا اصل نام’’انصاراحمد‘‘ اُن سے متعلق بیشتر تحریرو ں میں بخوبی مندرج دیکھا جاسکتا ہے۔ چناں چہ ۱۹۳۴ء یا اُس کے آس-پاس شائع بشیرہندی کی مرتبہ کتاب’’میرا پسندیدہ افسانہ‘‘ میں شامل ایک تحریر کے اندر اُن کا اصل نام مرقوم ہے۔
ڈاکٹر اَعظم کریوی کی پیدائش ہندوستان کے مشہور شہراِلہ آباد (موجودہ ضلع کوشامبی)، پرگنہ (تحصیل) چائل، گنگا کے کنارے واقع ’’کُرئی‘‘ نامی ایک گاؤں میں ہوئی۔ تاریخ پیدائش نامعلوم ہے، البتہ! ۱۸۹۹ء سال پیدائش معلوم ہے۔ اپنے آبائی وطن ’’کُرئی‘‘ کی طرف نسبت کرتے ہوئے قلمی نام ’’اعظم کُریوی‘‘ لکھا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں جانا اُن کے کچھ بھی سودمند ثابت نہیں ہوا، اور اپنی حق گوئی اورحق نگاری کے باعث ۲۲؍ جون ۱۹۵۵ء میں ایک وحشت ناک حملے کے شکار ہوگئے اور یوں ایک حقیقت نگارفنکار کا خاتمہ ہوگیا۔
ڈاکٹراعظم کُریوی کے والد فیاض احمد علاقے کے رئیس اور زمیندار تھے۔ چوں کہ گھرانہ خوشحال تھا اِس لیے اُن کا بچپن نہایت بے فکری اور آسودگی میں گزرا۔ اِبتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی۔ سہارن پورمیں اپنے ماموں احتشام الدین کے پاس کچھ دنوں رہ کر حصول تعلیم کی اورپھراِلہ آباد ہاسٹل میں رہتے ہوئے اِنٹر وغیرہ پاس کیااور شعبہ فوج میں ملازمت اختیارکرلی ۔ چوں کہ ڈاکٹری پیشے متعلق تھے اِس لیےقلمی نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھاجانے لگا۔
ڈاکٹر اعظم کریوی کی ادبی زندگی کا آغاز اُن کی اوائل عمری میں شعر گوئی سے ہو چکا تھا۔ اُن کے چھوٹے بھائی حکیم اسرار احمد کریوی کے مطابق: اِسکول میں ایک اُستاذ تھے جو پنڈت جی سے مشہورومعروف تھے اُن سے ڈاکٹراعظم کریوی کی بڑی ناراضگی رہتی تھی، چناں چہ اُن کے خلاف دو چار اَشعار کہہ کر اَپنے دل کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے۔ اِس طرح اُن کی ادبی تخلیقی صلاحیت پہلے پہل شعر گوئی کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ایک روایت کے مطابق ۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۰ء تک ملازمت کے سلسلے میں میرٹھ میں قیام پذیر رہے اور یہیں سے ڈاکٹر اعظم کُریوی کے نثری ادب کی ابتدا ہوئی کہ اُنھوں نے چند رومانی خطوط کا ایک مجموعہ تیار کیا اور’’ پریم پتر‘‘ کے نام سے ۱۹۱۹ء میں میرٹھ سے شائع بھی کرایا۔ پھر جب۱۹۲۱ء میں اپنے اُستاذ نوح ناروی کی سر پرستی میں الہ آباد سے ماہنامہ ’’طوفان‘‘ نکالا تو وہ با ضابطہ طور پرافسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے، کہانی لکھنا شروع کردیا اوراَپنا پہلا افسانہ ’’پریم کی انگوٹھی‘‘ ماہنامہ’’ طوفان‘‘ میں شائع کیا۔ یہ افسانہ بہت پسند کیا گیا۔ اُس کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’پریم کی انگوٹھی‘‘ترجمہ ہوکرہندی اور گجراتی زبان میں بھی شائع ہوا۔
گویا ڈاکٹراعظم کریوی نے اوّلاً شعروشاعری سے شغف رکھا۔ مضامین ومقالات بھی لکھے اورجرائد ورسائل کی ادارت بھی فرمائی۔ لیکن اُن کا خاص اوراَصل میدان افسانہ نویسی ہی رہا۔ ویسے تو اُن کے طبع زاد اَور غیر طع زاد مطبوعہ افسانوں کی مجموعی تعداد تکرار اِشاعت کے ساتھ۲۶۴؍ تک پہنچتی ہے۔ لیکن تحقیق وتمحیص اور تلاش و جستجو کے بعد اُن کے افسانوں کی حتمی تعداد کل ۱۳۰؍ ٹھہرتی ہے، جن میں سے کل۹۰؍ کہانیاں ہی اب تک مدون ہو سکے ہیں۔ڈاکٹر اَعظم کریوی کی حیات میں۱۹۴۲ء سے لے کر۱۹۴۵ء کے درمیان اُن کے سات اَفسانوی مجموعے (۱) شیخ و برہمن (۲) پریم کی چوڑیاں (۳) دکھ سکھ (۴) کنول (۵) انقلاب (۶) ہندوستانی افسانے (۷) روپ سنگھار‘‘ شائع ہوئے۔۱۹۴۲ء میں پہلا افسانوی مجموعہ ’’شیخ و برہمن‘‘ شائع ہوااور۱۹۴۵ء میں ساتواں افسانوی مجموعہ’’روپ سنگار‘‘ شائع ہوا۔ اِس کے برسوں بعد ۲۰۰۹ء میں اعظم کُریوی کے متذکرہ بالاتمام افسانوی مجموعے دوبارہ منظرعام پرآئے جنھیں اُن کے بیٹے خالد اعظم نے نئے سرے سے کمپوز کرا کراِسلام آباد سے شائع کیا۔ اِس کے علاوہ خالد اعظم نے مزید چار اورنئے مجموعے اعظم کُریوی کے نام سے شائع کیے ہیں۔ اِس طرح مجموعی اعتبار سےڈاکٹر اعظم کُریوی کے افسانوی مجموعوں کی تعداد گیارہ تک پہنچتی ہے۔ اول الذکر تمام افسانوی مجموعے ہمارے زیرمطالعہ رہ چکے ہیں، البتہ! آخرالذکر چاروں افسانوی مجموعے ہنوز ہماری نظرسے نہیں گزرسکے ہیں۔
موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اُنھوں نے اپنے افسانوں میں برصغیر کے معاشرتی اور سماجی مسائل کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔ بالخصوص دیہاتی زندگی، وطن دوستی، سماجی و سیاسی مسائل مختلف تحریکات عصریه، مشرق و مغرب کی کشمکش، بر صغیر میں خواتین کی کسمپری، پولیس کا منفی کردار عوام کی جہالت تو ہم پرستی وضعیف الاعتقادی، فطری مناظر، مذہبی رہنماؤں کی منافقت، با اثر افراد اور زمینداروں کے مظالم، انگریزی حکومت کی خود فرض پالیسیاں، غربا کی بے کسی اور ساہوکاروں کی زرکشی جسے موضوعات اُن کے افسانوں کے غالب موضوعات ہیں۔ڈاکٹراعظم کریوی کے افسانوں کی بنیاد کیا ہے، اِس پر وہ بذات خود روشنی ڈالتے ہوئے لکھتےہیں کہ’’جب دل پر چوٹ لگتی ہے یا دل کسی نظارہ سے متأثر ہوتا ہے تو میں افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ جس گاؤں یا شہر کے متعلق افسانے لکھتا ہوں، میری انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ ان مقامات کی مخصوص فطرتیں جھلکتی ہوئی نظر آئیں تاکہ پڑھنے والا اُس مقام کی مخصوص فضا کا لطف حاصل کر سکے۔ عربی یا فارسی کے شیر میں الفاظ کے ساتھ ساتھ بھاشا کے میٹھے شبد اورآسان سے آسان زبان میں سبق آموز افسانے لکھنا میری افسانہ نگاری کا مقصد ہے۔‘‘( میں افسانہ کیوں کر لکھتا ہوں،۱۹۳۴ء)
اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اعظم کُریوی کے افسانوں میں چارچیزوں کا عمل دخل کچھ زیادہ ہے، مثلاً:
(۱)اعظم کُریوی کے افسانے اُن کے دل کی آواز ہیں اور یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
(۲) جس جگہ یا جس مقام کو وہ اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں اُسے فطری بنانے پر زور دیتے ہیں، تاکہ کسی تصنع کا احساس نہ ہو اور پڑھنے والوں کو اَیسا محسوس ہو کہ وہ اُس کے دل کا تر جمان ہے۔ بقول غالب:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
(۳) ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکے، بہ الفاظ دیگر وہ اپنے افسانوں میں ہندوستانی زبان ’’بھاشا ‘‘کا استعمال بخوبی کرتے ہیں۔
(۴) وہ اپنے افسانوں کو سبق آموز بنانے پر زور دیتے ہیں، کیوں کہ اُن کا اصل مقصود سماج و معاشرےکی اصلاح ہے۔
اگر سچ کہا جائے تومنشی پریم چند کی اصلاح پسندی، حقیقت بیانی اور دیہات نگاری کے فن کو جس خوبی اور ہنر مندی سےڈاکٹر اعظم کریوی نے برتا ہے وہ شاید ہی کسی نے سوچا ہو۔ بقول مجنوں گورکھپوری:’’اگر کوئی پریم چند کے اثر کو اپنے اندر جذب کر سکا ہے تو وہ اعظم کریوی ہیں، اُن کے افسانے بھی دیہات کی عام زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اوروہ اپنے افسانوں میں مقامی رنگ کافی بھر دیتے ہیں، ان کا دل حساس ہے اور اُن کی نگاہ تیز اور رسا ہے، وہ واقعات کے نازک سے نازک امکانات اور جذبات کے لطیف سے لطیف میلانات کو محسوس کر کے بیان کر سکتے ہیں۔‘‘(اُردوافسانہ اور اُس کی غایت، ص:۱۲۹-۱۳۰)
اِس کے باجود منشی پریم چند اورڈاکٹر اعظم گریوی کے افسانوں میں واضح فرق نظر آتا ہے:
(۱) منشی پریم چند کی حقیقت پسندی میں ڈاکٹراَعظم کریوی نے رقت پسندی کا زاویہ شامل کیا، نیزمنشی پریم چند کے کردار قوت عمل سے معمور اور بے حد فعال ہیں جب کہ ڈاکٹراعظم کریوی کے کردار قسمت پر حد درجہ صابر و شاکرمعلوم پڑتے ہیں۔
(۲) جورومانی مستی و رنگینی ہےڈاکٹراعظم کریوی کے افسانوں میں پائی جاتی ہے وہ منشی پریم چند کے افسانوں میں نہیں۔ منشی پریم چند کے افسانوں میں سب کچھ ہونے کے باوجود شاعرانه مستی و جوش نہیں، لیکن ڈاکٹر اعظم کریوی کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی شعریت سے خالی نہیں ۔
ایسا اِس لیے بھی ممکن ہے کہ ڈاکٹر اعظم کریوی مزاجاً رومان پسند واقع ہوئے تھے۔ وہ آغازِ حیات ہی سے علاقے کی سحراَنگیزیوں میں کھوئے کھوئے سے رہتے تھے۔ اُن کا آبائی گھر گنگا کے کنارے پر واقع تھا جہاں سے وہ روزانہ گنگا کے جل ترنگ کو دیکھا کرتے تھے۔ بلکہ اکثر و بیشتر کشتی پر بیٹھ کر دور تک نکل جاتےتھے۔ مناظر فطرت کا نظارہ کرتے اور پھر اُسی کی مدد سے اپنے افسانوں کی عمارت کا تانا بنتے تھے۔
جہاں تک حقیقت بیانی اور دیہات نگاری کی بات ہے تو منشی پریم چند کے علاوہ معاصرین میں سدرشن اور علی عباس حسینی نے بھی اِس دشت کی سیاحی کی ہے۔ لیکن اُن میں ڈاکٹراعظم کریوی، منشی پریم چند سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ڈاکٹر اعظم کریوی نے اپنے افسانوں میں منشی پریم چند کے فن خاص کو بڑی مہارت اور خوبی کے ساتھ سمو لیا ہے۔ بنا بریں احمد صدیق مجنوں گورکھپوری نے ڈاکٹراعظم کریوی کو منشی پریم چند کا سچا شاگرد قرار دیا ہے کہ ’’اعظم کریوی پریم چند کے سچے شاگرد ہیں۔ وہ بےلاگ اور غیرشخصی خارجیت جو پریم چند کا خاص فن ہے، اعظم کُریوی میں کافی پائی جاتی ہے۔‘‘(ادب اورزندگی، ص:۲۴۳، نسخہ: ۱۹۶۵ء)
لیکن ہمارے لیے مجنوں گورکھپوری کے اِس نظریے کی تائید وتوثیق کرنا ایک مشکل امر ہے۔ پریم چند اوراَعظم کُریوی کے درمیان فنی یکسانیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ آپس میں معلمی وشاگردی کا تعلق ہو۔ یہ ایک اتفاق بھی ہوسکتا ہے اور پھرچوں کہ دونوں نے ایک ہی جیسے ماحول وفضا اورایک ہی طرح کے آب وہوا (الہ آباد وبنارس) میں پرورش پائی ہے، لہٰذا فنی یکسانیت اورفکری یک رنگی کا ہونا فطری امرہے۔اِس لیے اعظم کُریوی کو پریم چند کا سچا شاگرد قراردینا جلدبازی ہوگی۔ خیر! یہ پہلو قابل تحقیق ہے۔
ڈاکٹر اَعظم کریوی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شہر میں کی گزارا ہے، اِس کے باوجود اُن کے افسانے خالص دیہات کی نمائندگی کرتےہیں۔ اُن کا ایک افسانہ ’’انقلاب‘‘ ہے جسے دیہی زندگی کا بہترین عکاس کہا جا سکتا ہے۔ اُس افسانے میں ڈاکٹراعظم کریوی نے ایک طرف ’’امریاپور‘‘ گاؤں میں بسنے والوں کی سادہ لوحی، بھائی چارگی اور مروت و ہمدردی کو خوب صورتی سے پیش کیا ہے، تو دوسری طرف ساہوکاروں اورمنصب داروں کی بے ایمانی و مکاری کی پر دہ دری بھی کی ہے کہ امر یا پور میں جب سے کارخانے بننے شروع ہوئے تو گاؤوں میں لہلہاتے سبزہ زار، اُونچے اونچے درخت سب ختم ہو گئے۔ اب نہ ڈھور-ڈنگر کے لیے چارے کا ذریعہ رہا اور نہ وہ چھاؤں جہاں محفلیں جمتی تھیں۔ شراب-تاڑی کے طوفان نے گاؤں کا سکون درہم برہم کر دیا اور جو کسان و مزدور کبھی بڑے آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اُن کا استحصال ہونے لگا۔ یہاں تک کہ گاؤں کی بہویں- بیٹیاں جوپہلے بے روک-ٹوک اِدھر-اُدھرآیا جایا کرتی تھیں، اُن بہوؤں اور بیٹیوں کا گھر سے نکلنا دو بھر ہو گیا۔ایک وقت تھا کہ راجہ رام موہن رائے، ایشورچند ودّیا ساگر اور دیگر اِصلاح پسندوں نے ہندوستان سے’’ستی پرتھا‘‘ جیسے سماج دشمن رسم ورواج کو ختم کرانے میں اچھی-بھلی کامیابی حاصل کرلی تھی، اور کافی حد تک بیوہ کی دوسری شادی کے راستے ہموار بھی کر دیے تھے مگر اَبھی بھی سماج میں کچھ ایسے نا خلف لوگ موجود تھے جو اِس مسئلے کو روکنے میں کوئی تعاون نہیں دے رہے تھے۔ ایسے میں بیواؤں کوکن پُر سوز حالات سے گزرنا پڑرہا تھا اور آس- پاس رہنے والے لٹیروں سے وہ کس طرح مزاحم تھیں، اِن تلخ حقائق کو ڈاکٹراعظم کریوی نے بڑی خوبیوں اورہنرمندی سے پیش کیا ہے اور اُس رسم ورواج کے انسانیت سوز نتائج کی نشاندہی کرتے ہوئے اُس سے باز رکھنے کی اچھی کوششیں کی ہیں۔ افسانہ ’’مایا‘‘ اِس کی بہترین مثال ہے۔ اُن کا ایک شاہکار افسانہ’’ قربانی‘‘ ہے جس میں اُنھوں نے اُن مفاد پرستوں کی قلعی کھولی ہے جو مذہب کے پس پردہ اپنا اُلّوسیدھا کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر اعظم کریوی نے ایک طرف بےکس وبےبس غرباومساکین اورمظلوم خواتین کےمسائل کونمایاں کیا ہے تو دوسری طرف انقلابی خواتین کی ہمت وحوصلے کوبھی اپنےافسانے کا موضوع بنایا ہے جو سماج ومعاشرےکی نا انصافیوں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور قوت فیصلہ کا جذبہ رکھتی ہیں۔ ’’کنول‘‘ ایک ایسی ہی صنف نازک کی داستان حیات ہے جو جبری شادی کوقبول نہیں کرپاتی ہے اور جب انسانی خول میں چھپے ہوئےعصمت کے لٹیرے اوردرندے اُس کی عفت و پاکدامنی پرڈا کہ ڈالنا چاہتے ہیں، تو وہ سماج کو یہ کہتے ہوئے ٹھو کر مار دیتی ہے کہ ’’میں نے اب تک سماج کا خیال رکھا۔ میری جانب سے کوئی ایسی بات نہ ہوئی جس سے کسی کو شکایت کا موقع ملے یا سماج کی بدنامی ہو، مگر وہی سماج میری عزت کا طلب گار ہے۔ بس اب میرے لیےایک ہی راہ رہ گئی ہے کہ میں سماج کو چھوڑ دوں۔‘‘(افسانہ کنول)
ڈاکٹر اعظم کریوئی کا خاص مقصد سبق آموزی تو ہے لیکن وہ ناصح اور واعظِ محض نہیں بنتے۔ بلکہ وہ اپنے مشاہدات کوسلیقے سے پیش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اِس کے باوجود اُن کے پلاٹ نہایت واضح اور صاف سادہ ہوتے ہیں اور کردار بھی اِس قدر فطری معلوم پڑتے ہیں کہ اُن میں زندگی کا پورا پورا رنگ و آہنگ محسوس ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ زبان کی چاشنی، مکالمے کا فطری انداز، جملوں کی شیرینی اور گھلاوٹ بھی ایک دلنشیں گداز کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ بقول برج موہن دتاتریہ کیفی:
’’ سلاست جو مثنوی کی طرح افسانچہ کی شرط اوِل ہے، اُس(اعظم کُریوی کے افسانوں) میں برابر موجود ہے۔ نہ پلاٹ میں اُلجھاؤ ہے، نہ اسلوب اور مناظر نگاری میں تصنع اور تکلف۔ ہر افسانہ رواں- رواں اور نتیجہ خیز ہے۔‘‘(پیش لفظ، کنول)
ڈاکٹراعظم کریوی کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں ہندو معاشرت کی جو جادوئی عکاسی کی ہے وہ شاید ہی کسی اور مسلم افسانہ نگاروں کے ہاں موجود ہو۔ ایک ہندو افسانہ نگار کے لیے ہندو معاشرت اور اُس کے رسم و رواج کی تصویر کشی کرتا تو فطری امر ہے۔ لیکن ایک مسلم افسانہ نگار کے لیے ہندو سماج کی درست اورسچی مصوری کرنا محال نہیں تو آسان بھی نہیں ہے،مگرڈاکٹراعظم کریوی نے جس صحت مند ہندو- معاشرت کے حقیقی نظارے پیش کیے اور اِحساسات و جذبات کی جو عمدہ مصوری کی ہے اُس سے بڑھ کر کسی مسلم کہانی کار کیابلکہ کسی ہندو کہانی کارکی کوششیں بھی مشکور نہیں ہوسکتیں۔
غرض کہ ڈاکٹر اعظم کر یوی کے افسانوں میں اُنیسویں صدی کے دور اَوّل کی سیاست ومعاشرت اور اخلاق و مذہب کی ایک واضح تصویر اُبھرتی دکھائی دیتی ہے جو اَپنی تاریخی حیثیت بھی رکھتی ہے اور اَپنی تہذیبی روایات کی پاسدار ی بھی کرتی ہے۔ اِس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ایک نمائندہ افسانہ نگار کی جو خصوصیات ہوتی ہیں قریباًوہ سبھی ڈاکٹراعظم کریوی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے