ڈاکٹر جہاں گیر حسن
ہندوستان کا جمہوری نظام بہرحال اپنے تمام باشندگان کو دیگر تمام حقوق کے ساتھ مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے اورکسی بھی مذہبی بنیادوں پر بہرنوع تمام طرح کے امتیازات ومنافرت اور فرقہ پرستی سے روکتا ہے۔ لیکن یہ بڑی ستم ظریقی ہے کہ آج جمہوری نظام کا محافظ ہی بذات خود جمہوری نظام پر قدغن لگا رہا ہے اور جس جمہوری نظام کے تحت تمام تر مذہبی تعصب و جانبداری پر پابندی عائد کی گئی ہے آج اُسی نظام کے سائبان میں اِنتہائی شاطرانہ طریقے سے مذہب کے نام پرفرقہ پرستی کو ہوا دی جارہی ہے اورملک میں ہرچہارجانب نفرت وتعصب ،فتنہ و فساد اور قتل وغارتگری کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دیش وپردیش کے مکھیا اور قانون ودستورکے اَہم ذمہ داران بھی اِس طرح کی غیرقانونی اورغیردستوری سرگرمیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں، اِس تعلق سے موقع بہ موقع کی گئی درج ذیل گفتگو اور اَنداز گفتگو واضح انداز میں ہر مطلع کو صاف کردیتا ہے، مثلاً:
۱۔ ’’آپ کی عدالت میں‘‘ انڈیا ٹی وی کے مشہور اِینکر رجت شرما کی طرف سے ایک سوال ہوتا ہے کہ ’’سماج وادی پارٹی کے اُمید وارضیاء الرحمٰن برق نے (ایک اِنتخابی ریلی میں) کہا ہے کہ شہاب الدین، عتیق احمد اور مختارانصاری کو اُوپر پہنچا دیا گیا ہے اِس لیے قسم ہے آپ لوگوں کو، اُن کی قربانی ضائع نہیں جانا چاہیے۔‘‘ اِس پراُترپردیش کے مکھیا کا جواب آتا ہے کہ ’’دیکھیے اُوپر گئے ہیں یا نیچے گئے یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن کسی زہریلے سے اُمید کرنا کہ وہ شانتی کا پیغام دے گا تو یہ بیوقوفی ہوگی۔ اُس کا خاندانی طرزعمل ہے وہ۔ اپنے خاندانی طرزعمل کو آگے بڑھا رہے ہیں وہ۔ لیکن اِس بار سنبھل میں اِس کا بھی حساب ہوجائےگا۔‘‘(۲) ایک موقع سے۲۷؍ جنوری ۲۰۰۷ء میں اُترپردیش کے موجودہ مکھیا ہی یہ کہتے نظر آئے کہ اگر ایک غیرمسلم کا خون بہےگا تومستقبل میں ہم ایف آئی آر درج نہیں کرائیں گے بلکہ اُس کے بدلے دس مسلمانوں کا قتل کریں گے۔ برداشت کی ساری حدیں ختم ہوچکی ہیں۔ آپ سب (غیرمسلموں) کو لڑنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ مزید آگے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ (مسلم) ایک غیرمسلم بچی کو لے جاتا ہے، تو ہم ۱۰۰؍ مسلم بچیوں کو لے جائیں گے۔ اگروہ ایک غیرمسلم کو ماریں گے تو ۱۰۰؍ مسلم کو ہم بھی ماریں گے۔ (۳) چندریان کی کامیابی پر گفتگو کے دوران پارلیمنٹ میں ایک زعفرانی ایم پی رمیش ودھوڑی کے ذریعے ایک مسلم ایم پی دانش علی کو بار باربھڑوے، دہشت گرد، کٹورے جیسے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے لیکن اِسپیکر اُوم برلا کی طرف سے رمیش ودھوری پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی۔ بلکہ اِس کے برخلاف احتجاج کررہے دانش علی پرہی بیٹھنے کے لیے دباؤ بنایا جاتا ہے اور اِس بیچ مذکورہ زعفرانی رہنما کی طرف سے مسلسل ’’اے دہشت گرد، اے ملّا وغیرہ کہنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اِس واقعے کوایک وَائرل ویڈیو میں ساری دنیا نے دیکھا۔ (۴) ایک نیوز اِینکراَمیش دیوگن اپنے ایک ڈیبیٹ میں شریک کار کنچن یادو سے سوال کرتا ہے کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ لوگ اپنے مفاد کے پیش نظرآواز اُٹھا رہے ہیں، تو زعفرانی جماعت والے اپنے مفاد کے پیش نظر پولرائزیشن کررہے ہیں، اِلزام یہی لگتا ہے؟ اِس پر وہ جواب دیتی ہیں کہ ’’آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں نوجوان کتنے ہیں؟ تقریباً پینتیس کروڑ۔ مطلب کل آبادی کا ۲۷/۲۸ فیصد حصہ نوجوان پرمشتمل ہیں اور مسلمان کتنے ہیں؟ تقریباً بیس کروڑ، اگرکل آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمان محض ۱۴؍ فیصد ہیں۔ یعنی ہمارے ملک میں عام نوجوانوں کی تعداد، مسلمانوں کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن دیش کے مکھیا جناب نریندرمودی کی ریلیوں میں مسلمانوں (کی مخالفت) کے علاوہ نوجوانوں کی بات کبھی سنی (آپ نے)؟ کیا آپ نے روزگار کی بات سنی (اُن سے) ؟ نوکری کی بات سنی (اُن سے)؟ کیا پیپر لیک کی بات سنی (اُن نے)؟ (۵) بلکہ اس کے برخلاف راجستھان کے اندر۲۰۲۴ء کے ایک انتخابی جلسے میں دیش کے مکھیا بڑی بے باکی سے یہ کہتے نظر آئے کہ کانگریس کے مینوفیسٹو میں درج ہے کہ وہ ماؤں اور بہنوں کا سونا-چاندی چھین لےگی اور تقسیم کردےگی، پہلے جب کانگریس کی حکومت تھی تو اُنھوں نے کہا تھا کہ ملک پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تمام دولت اورتمام جمع پونجی اکٹھا کرکے مسلمانوں کو دےگی جن کے بچے زیادہ ہیں اور اُن درمیان تقسیم کردےگی۔ دراَندازوں کو دِے دےگی۔ کیا آپ کی کمائی کا پیسہ دراَندازوں کو دِیا جائےگا؟ آپ کو منظور ہے یہ؟ اور اِسی پربس ہوتو کچھ بات بنے بلکہ کبھی وہ مسلمانوں کوکپڑوں سے پہچان لینے کی بات کرتے ہیں اورکبھی زعفرانی رہنما، مسلمانوں کوغدارکہتے ہیں، یہاں تک کہ اُنھیں گولی مار دینے کا نعرہ بھی لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔
چناں چہ اِن تمام تعصب آمیز وجانبدارانہ اور فرقہ پرستانہ وجارحانہ تیور وگفتگو کو دیکھتے ہوئے اگرمدھیہ پردیش کے ضلع کلکٹر سنجیو سریواستو نے یہ بیان دیا ہے کہ ’’میں صرف مسلمانوں کے مکان کو منہدم کروں گا‘‘ تواَقلیتی طبقے کو اُس افسر کے اِس رویے پرہرگزمتعجب نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اِس طرح کی باتیں اوراِس طرح کے اقدام گزشتہ ایک دہائی سے پورا ملک بخوبی سن بھی رہا ہے اوربخوبی دیکھ بھی رہا ہے۔ بالخصوص پچھلے دس برسو ں سے ریاستی اورملکی سطح پرجس اعلیٰ پیمانے پر مذہبی کرپشن کو فروغ دینے کی کوششیں جارہی ہیں اُس کا ایک چھوٹا سا نمونہ بھنڈ ضلع کا سانحہ ہے کہ جہاں ایک طرف ٹھاکر برادری کے چند اَفراد، جین برادری کے ایک نوجوان کا قتل کردیتے ہیں اور اُسی کے کچھ دنوں بعد مسلم برادری کے چند اَفراد، غیرمسلم برادری کے ایک نوجوان کا قتل کردیتے ہیں۔ لہٰذا قانوناً ذات ومذہب کے امتیازات کے بغیر ہرایک مجرم کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ ضلع کلکٹر کی طرف سے صرف مسلم برداری کے جوانوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور صرف اُنھیں کے مکانات منہدم کیے جاتے ہیں۔ اِس پرجین برادری کے لوگ مذکورہ افسر کو فون کرتے ہیں کہ جس طرح مسلم ملزمین کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اُسی طرح سے ٹھاکربرادری کے ملزمین پر بھی کارروائی ہونی چاہیے، تو ضلع کلکٹر برجستہ یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ میں ’’صرف مسلم ملزمین کے مکان کو منہدم کروں گا غیرمسلم ملزمین کے مکان کو نہیں۔‘‘ اور ٹھاکر برادری کے جوانوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔
اِس میں چنداں شک کی گنجائش نہیں کہ ضلع کلکٹر کا فرقہ پرستی پر مبنییہ قدم محض مسلمانوں سے اُس کی سخت نفرت کا اظہار ہے، لیکن انصاف پسندی کی نگاہ دیکھا جائے تو مذکورہ افسر کا یہ غیرقانونی اور اِنتقامانہ قدم مسلم مخالف ہونے کے ساتھ جین مخالف بھی ہے۔ مسلم مخالفت کے جوش میں اِس قدر بے حس ہوگیا ہے کہ اُسے یہ احساس ہی نہیں رہا کہ جین برداری بھی اکثریت سے متعلق ہے، یا پھر اُس کی نظر میں ٹھاکربرداری اور اُس جیسے دیگر غیرمسلم اَفراد کی جان کی قیمت توہے لیکن جین برادری اور اُس جیسے دیگر غیرمسلم اَفراد کی جان کی قیمت اُس کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔ ورنہ ایک ہی طرح کے ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے میں یہ جانبداری چہ معنی دارد؟ اِس لیے مسلمانوں کے ساتھ جین برادری اور اُس جیسے دیگر غیرمسلم طبقات کو بھی اِس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور ذاتی طورپر کسی بھی نوع کا اِنتقامانہ عمل/ردّعمل کے اظہار کی بجائے اوّل فرصت میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا چاہیے، تاکہ ایسے شرپسند اور سماج دشمن عناصر پر بروقت شکنجہ کسا جاسکے۔ اِس کے ساتھ ہی ایسے مواقع پر ہرگزگھبرانا نہیں چاہیے اور نہ ہی احساس کمتری کا شکار ہونا چاہیے بلکہ ایسے شرپسندوں کے خلاف منظم اور مدلل انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے، نیز بہرحال قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے پُراُمید رہنا چاہیے کہ دیر-سویر ہی سہی کانوڑ یاتراورحجاب کی مانند مبنی پراِنصاف فیصلہ ضرورآئےگا۔

