ڈاکٹر جہاں گیر حسن
آج ہم آزاد ہندوستان کا۷۸؍واں جشن منارہے ہیں لیکن کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟ کیوں کہ آج بھی اُسی طرح سے مذہبی منافرت، طبقاقی اونچ-نیچ، غربت و مفلسی، امیروغریب، جہالت وبےعلمی، سیاست کی کالابازاری اورسرمایہ دارانہ نظام کے ہم غلام ہیں جس طرح سے انگریزوں کے زمانے میں تھے۔ انگریزوں کے اقتدارمیں بھی تمام ترسہولیتیں اورساری آسائشیں سرمایہ داروں کے لیے مختص تھیں بعینہ آج بھی تمام ترسہولتیں اور ساری آسائشیں ثروت مندوں کے لیے مختص ہیں۔ اُس زمانےمیں بھی صاحبان اقتدار اور سرمایہ داران، شراب وکباب اورعیش وعشرت پرجس طرح ایک رات میں کروڑہا کڑور بےدریغ خرچ کردیا کرتے تھے اوراُن اخراجات کی تلافی عوام الناس کی محنت ومزدوری اور اُن کی گاڑھی کمائی سے خراج ولگان وصول کر کیا جاتا تھا وہی کام آج بھاری ٹیکس کی شکل میں کیا جارہا ہے۔ جس طرح پہلے قوانین سازی کا مطلب تھا خواص کو تجارتی منافع پہنچانا اوربہرصورت اُنھیں تحفظ فراہم کرنا، توآج بھی قوانین سازی کا مطلب وہی ہے، کچھ نہیں بدلا، اورآج بھی ایوان سیاست میں ترمیم قوانین کے نام پروہی سب کچھ ہورہا ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰؍ اورکسانی قانون میں چھیڑ-چھاڑجیسی بہترین مثالیں ہمارے سامنے موجودہیں اور وقف بورڈ قانون میں دراَندازی تو اِس سلسلے میں پختہ ثبوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ مزید صاحبان اقتدارایک طرف حکومتی سطح پر شجرکاری کی تحریک چلاتے ہیں اوراِس سلسلے میں ملکی ومعاشرتی سطح پر بیداری لانے کے لیےمختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں، جس پرعربوں-کھربوں روپےخرچ کیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف فضائی آلودگی سے نجات دینے والے ہرے بھرے اورگھنے جنگلات کوبھی اُجاڑ دیا جاتا ہے بلکہ انسانی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دی جاتی ہیں۔ لہٰذا آرٹیکل۳۷۰؍، ہسدیوجنگل کی کٹائی، جدید کسانی قانون کا نفاذ، بیف کی ریکارڈ توڑ سپلائی، وقف بورڈقانون میں دراَندازی وغیرہ، یہ تمام چیزیں جن سرمایہ داروں کے منافع کے پیش نظرہوا، یا ہورہا ہے، اُن سے ہرتعلیم یافتہ اورہربا شعوراِنسان بخوبی واقف ہے۔ اِس کے برعکس ہندوستان کے بیشترافراد اِن تمام چیزوں کی حقیقت سے اَنجان اور نابلد ہیں تو محض اِس لیے کہ اُن میں سے توکچھ لوگوں کو مذہبی منافرت اورفرقہ پرستی کا اِس کا قدر عادی بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہرچیزکومذہب کے عینک سے ہی دیکھتے ہیں، جائز وناجائزسے اُنھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا اور رَہے بقیہ لوگ، تو وہ تعلیم وتعلّم اورعقل وشعور سے بالکل بے بہرہ ہوتےہیں کہ اُنھیں یا توکچھ سمجھ ہی نہیں آتا، یا پھروہ اِن جھمیلوں میں پڑنا نہیں چاہتے۔
آج حال یہ ہوگیا ہے کہ صاحبانِ اقتدارکی طرف سے جوبھی فیصلے لیے جا رہے ہیں وہ ملک وعوام کے حق میں کم اور سرمایہ داروں کے حق میں زیادہ مفید ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تومساجد ومنادر بھی صاحبانِ اقتدار اورسرمایہ داروں کے نشانے پرآچکے ہیں، جنھیں یکے بعد دیگرے حصول منافع کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ مذہبی مقامات کو’’ٹوریسٹ پیلس‘‘ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ شہری ترقی و بہبودی کے نام پرعوامی گھروں کے اِنہدام کواِس سلسلے کی ایک اہم کڑی کے طورپردیکھا جاسکتا ہے۔ علاوہ اَزیں ملکی وصوبائی سطح پرسرکاری محکموں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو رِیلوے، ٹیلی کام، ہوائی اَڈّے وغیرہ تمام شعبے پرائیویٹ ہاتھوں میں دے کر صاحبانِ اقتدارنے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ عوام الناس کو بھوکے مارنےکا راستہ بھی ہموار کررکھا ہے۔ واضح لفظوں میں کہا جائے تورِیلوے ٹریکس، ٹیلی کام ٹاورز اور ہوائی اَڈّہ ملک وعوام کا، لیکن اِن سب پراِجارہ داری چند سرمایہ دار وں کو حاصل ہے۔ جن محکموں اورشعبوں کے تمام ترمنافع، سرکاری خزانے میں جمع ہونے تھے وہ آج محض سرمایہ داروں کی تجوری میں جارہے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ یہ اِسی پرائیویٹائزیشن اورمنافع خوری کا نتیجہ ہو کہ آج ریلوے حادثہ درحادثہ کا شکارہورہا ہے، جس کے باعث عوام کوجانی ومالی دونوں طرح کا نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے، لیکن نہ تو کسی سرمایہ دار کو اِس کی فکر ہے اور نہ ہی صاحبانِ اقتدار کو اِس کا کوئی غم، اوراگرعوام بھی اِن تمام ترجانی ومالی نقصانات پر بےحس وحرکت اور بالکل خاموش ہے، تو اِس کا واحد سبب یہی ہے کہ عوام کی غالب اکثریت تعلیم وتعلّم، عقل وشعوراور سیاسی ومعاشرتی چالبازیوں سے یکدم نا آشنا ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی اگر صاحبانِ اقتدار مذہبی منافرت کے خول سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں اورسرمایہ داروں سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا پا رہے ہیں تو اِس کی بھی وجہ تعلیم وتعلّم اور سیاسی ومعاشی شعوروآگہی سے نابلد ہونا ہی ہے، ورنہ کیا مجال کہ کوئی ہندوستان کی گنگا-جمنی تہذیب اور خیرسگالی جیسے جذبات سے کھیلواڑ کرسکے، اوراِس کی زندہ مثال مجاہدین آزادی ہیں۔
تقریباً سو-ڈیڑھ سو سال تک حکمرانی کرنے والے انگریزکو آخر ہندوستان کیوں چھوڑنا پڑا، حالاں کہ اُس نے ہندوستان اوراُس کے شہریوں کو مکمل طور سے اپنی چنگل میں جکڑ رکھا؟ اِس کے دواَسباب تھے: (۱) مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی، اکثریت واقلیت کو آپس میں لڑانے اوراُن پر حکومت کرنے کے لیے ناپاک سازشیں کی گئیں اورسرمایہ داروں کے ساتھ مل کر کمزورطبقات کو دَبانے اور کچلنے کا کام کیا گیا، جس کے باعث باشندگانِ ہند سخت بد دل ہوئے اوریوں انگریزوں کے خلاف منظم طورپر محاذ آرائی کا آغاز ہوا۔ (۲) علامہ فضل حق خیرآبادی، سید کفایت اللہ کافی، مولوی احمداللہ شاہ، بخت خان، بیگم حضرت محل، لیاقت علی، خان بہادرخان، منگل پانڈے، تانیا ٹوپے، رانی لکشمی بائی، کنور سنگھ، شاہ مل سنگھ وغیرہ جنھوں نے ۱۸۵۷ء کے اِنقلاب میں حصہ لیا، اور اَشفاق اللہ خان، رام پرشاد بسمل، شبھاس چندربوس، چندرشیکھرآزاد، بھگت سنگھ، اُودھم سنگھ، خان عبدالغفارخان، گاندھی جی، ابوالکلام آزاد، جواہرلال نہرو، سردارپٹیل، لوک مانیہ تلک، حکیم اجمل خان، رفیع احمد قدوائی، علی برادران، مختار اَنصاری، حسرت موہانی وغیرہ جنھوں نےجنگ آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنارکیا، تو یہ تمام مجاہدین آزادی بذات خود تعلیم وتعلّم کےاعلیٰ مقام پر فائز تھے اور میدان سیاست ومعیشت کے قابل قدر شہسوارتھے۔ اِن سب کی علمی لیاقت وصلاحیت کا شہرہ دور- دور تک تھا اوراِن سب کے سیاسی ومعاشی شعور کا سکہ ملک وبیرون ملک ہرجگہ چلتا تھا، یہاں تک کہ جنگ آزادی میں اُن کے ہمرازوہم قدم رہے عام ہندوستانی بھی تعلیم وتعلّم سے مزین تھےاورعقل وخرد میں کسی قدر کم نہ تھے۔ چناں چہ یہ مجاہدین کی تعلیم وتعلّم اور سیاسی ومعاشی شعور وآگہی کا نتیجہ تھا کہ اُنھوں نے بلا امتیاز مذہب وملت اِجتماعی طورپر’’پھوٹ ڈالو اور رَاج کرو‘‘ جیسی پالیسی کو رَد کردیا اوریوں۱۵؍اگست ۱۹۴۷ءمیں ہندوستان آزاد ہوگیا۔ لہٰذا موجودہ زمانے میں بھی اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری ترقی ہو، ہمیں روزگارملے، بہترین تعلیم گاہیں ہوں، ہمارا ملک آگے بڑھے، ہمارے معاشرے کی صالح تعمیروتشکیل ہو، سائنس وایجادت کے معاملے میں ملک وملت کا اقبال بلند ہو، گنگا-جمنی تہذیب اورخیرسگالی کا جذبہ ہمارے درمیان سے کبھی بھی ختم نہ ہواور ہرطرح کی فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو، تو لازم ہےکہ اپنے اندر سیاسی شعوروآگہی پیدا کریں،اپنی نسلوں کوتعلیم وتعلّم کے زیورآراستہ کریں، اُنھیں سیاسی شعوربخشیں اورتمام تر تعصب ومنافرت سے دور رکھیں، نیزہرطرح کی جانبداری سے بچتے ہوئے لائق وفائق اورشعوروآگہی کے حاملین افراد ہی کو ہم اَپنا رہبر ورہنما بنائیں تاکہ ہم اور ہماری نسلیں ملک ومعاشرت کی صالح تعمیر وترقی کے ساتھ اَصل جشن آزادی کا لطف ولذت حاصل کرسکیں ۔
