• منگل. اگست 19th, 2025

اِسماعیل ہانیہ: سو بار جب عقیق کٹا تو نگیں ہوا

Byhindustannewz.in

اگست 11, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن

اِسماعیل ہانیہ صرف فلسطین واہل فلسطین کے لیے ہی عظیم رہنما نہیں تھے بلکہ عالمی سطح پرتمام نسل انسانی کے لیے اِعتدال پسندی اور اَمن پسندی کے روشن چراغ تھے۔ آج اُن کے اِرتحال سے تاریخ انسانی اوراَمن پسندی کا ایک سنہرا باب بند ہوگیا اور اِس دنیا سے جاتے جاتے بھی وہ عالمی واِسلامی نسل کے لیے بالخصوص ایک نشانِ عبرت چھوڑ گئے اور اُن شرپسندوں کو بھی اِیکسپوز کرگئے ہیں جو ایک طرف اَمن وآشتی اور حقوق انسانی کے محافظ ہونےکا ڈھول پیٹتے ہیں تو دوسری طرف اِسماعیل ہانیہ جیسے اعتدال و اَمن پسند رَہنماؤں کو دِیکھنا نہیں چاہتے بلکہ اُنھیں موت کی نیند سلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ کہے بغیر بھی ہم نہیں رہ سکتے ہیں کہ اغیارتواَغیار ہیں اُن سے خیرکی اُمید ہرگزنہیں رکھی جاسکتی، لیکن قلق واِضطراب تو اُس وقت اوربھی دوچند ہوجاتا ہے جب ہم اَپنوں کے بیچ ہست سے نیست کی منزل میں پہنچ جاتے ہیں اور زبانی جمع خرچ کے سوا ہمارے پاس اورکچھ نہیں ہوتا۔ اپنوں کے بیچ اپنوں کا یوں غیرمحفوظ رہنا اوراِس تعلق سے محض یہ کہہ دینا کہ یہ شرپسندوں کی شرارت ہے کافی نہیں، بلکہ کہیں نہ کہیں اِس جرم عظیم کے بنیادی مجرموں میں ہمارے اپنے بھی شامل ہیں، کیوں کہ اِس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سخت گیر وتشدد پسند اَفراد ہردو اَطراف میں بخوبی پائے جاتے ہیں اور وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ اُن کے بیچ اَمن پسندی کی فضا قائم ہواور اُن کی سربراہی اور ہٹلرشاہی کے لیے کوئی خوف وخطر پیدا ہو۔ لہٰذا تہران کے محفوظ خطے میں اِسماعیل ہانیہ کا یوں آسانی سے لقمۂ اجل بن جانا بہت کچھ چغلی کرتا ہے۔ اِس سے صرف نظر اِسماعیل ہانیہ مختلف حیثیات سے بھی ہمارے سامنے آتےہیں اور بہرلحاظ وہ قابل رشک بھی معلوم ہوتے ہیں اور قابل تقلید بھی، مثلاً:
۱۔ اِسماعیل ہانیہ کی پیدائش ۱۹۶۲ء میں ہوئی اور ایک رفیوجی کیمپ کے سائے تلے اُنھوں نے اپنی آنکھیں کھولیں، لیکن جس ماحول میں اُنھوں نےشاہراہِ زندگی کو عبور کیا وہ بڑا ہی رشک آور تھا، وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری پروررش اور تعلیم وتربیت ایک صوفی ماحول میں ہوئی۔ صوفی مشائخ اوراُن کے اعمال وکرداراورتعلیمات وفرمودات وغیرہ اِن تمام چیزوں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میرے والدماجد خود ایک صوفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے گھرسے قریب ہی ایک خانقاہ ہوا کرتی تھی۔ میرے والد وہاں مجالس ذکرقائم کیا کرتے تھے اوراُن مجالس ذکرکو میں دیکھا کرتا تھا۔ نیز میلاد کی مجالس اور مجالس عزابھی ہوا کرتی تھیں۔ اُن کی شکلیں مختلف ہوا کرتی تھیں۔ اُن میں تین دنوں تک قرآن پاک پڑھا جاتا تھا۔ میں اُن مجالس میں موجود رہا کرتا تھا اور میں بھی قرآن پڑھتا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ جب میں کچھ بڑا ہوگیا تھا۔ میرے والد نے مسجد کے مؤذن کا فریضہ بھی انجام دیا۔ میرے گھر سے قریب ہی ایک مسجد تھی جس میں وہ اذان دیا کرتے تھے۔ وہ نمازِ فجر کی اذان کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ وہ روزانہ مجھے بھی بیدار کرتے تھے۔ اُس وقت میں چھ سال کا ہوا کرتا تھا۔ میں اُن کے لیے چراغ لے کر مسجد جایا کرتا تھا۔ کیوں کہ اُس وقت بجلی کا انتظام نہیں تھا۔ نہ ہی راستوں میں اورنہ ہی مسجدوں میں۔ میں مسجد کا دروازہ کھولتا تھا اور وہ اذان دیتے اور پھر میں اُن کے ساتھ نماز اَدا کرتا تھا۔ یہ میری پہلی تربیت تھی جو میرے حق میں اِنتہائی موثر ثابت ہوئی، مثلاً: میری شخصیت سازی میں، میرے افکار کی تعمیروتشکیل میں اور میرے نفس کی اصلاح میں۔ نیز دِین اور شعائر دِین سے قریب ہونے میں یہ تمام چیزیں معاون بنیں۔ یہاں تک کہ میں مشائخ اَوراُن کی تعلیمات سے قریب تر ہوتا گیا اور اُن سے اپنی تیرہ و تاریک حیات کو بقعۂ نور بناتا گیا۔
۲۔پھر اِسی پر بس نہیں رہا، بلکہ اسماعیل ہانیہ نےغزہ کے مشہور اِسلامک یونیورسٹی سے عربی ادب میں ۱۹۸۷ء کو اپنی گریجویشن مکمل کی۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اُنھوں نے اپنے آپ کو فلسطین اور اہل فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے وقف کیا اورپھر یکے بعد دیگرے اِسلامک اسٹوڈنٹس اور حماس بریگیڈ جیسی تنظیموں سے قریب ہوئےاور حماس کے روحانی قائد وبانی شیخ احمد یاسین کی صحبت پائی اور پھرپیچھے مڑکر کبھی نہیں دیکھا۔ حماس ودیگرتنظیموں سے جڑنے اور سرگرم رہنے کی پاداش میں اِسماعیل ہانیہ کو مختلف قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں، یہاں تک کہ ملک بدر جیسے دشوارکن مرحلے سے بھی اُنھیںگزرنا پڑا۔
۳۔سال ۲۰۱۷ء میں جب ڈاکٹرخالد مشعل کے قائم مقام سربراہ بنائے گئے اورجب اِسماعیل ہانیہ کی قیادت میں حماس نےحیرت انگیز طورپر پارلیمانی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تو فلسطین حکمرانی کی باگ-ڈور مکمل طور سے اُن کے ہاتھوں میں آگئی اوروہ وزیراعظم بنائے گئے، لیکن کسی باعث برطرفی کے دشوارگزار مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اِس کے باوجود اُن کی قومی وملی حمیت میں کسی نہج پر کوئی کمی نہیں آئی بلکہ حسب سابق فلسطین اوراَہل فلسطین کی آزادی اور اُن کی تعمیروترقی کے لیے شب وروز کوشاں رہے۔ بالآخر۵؍اگست ۲۰۲۴ء کو اِس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔
۴۔ اِسماعیل ہانیہ کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہم سب کے لیے سبق آموزاورمحرک ہے کہ جب قیدوبند کی صعوبتوں سے نجات مل گئی اور ملک بدر جیسے المناک حالات سے بھی باہرنکل چکے، تو غزہ اِسلامک یونیورسٹی میں بحیثیت ڈین فیکلٹی ایک اہم عہدے پر فائز ہوئے، اگر وہ چاہتے تو گزشتہ صعوبت آمیز زندگی سے دور ایک بےفکراورآسودہ حال زندگی بسر کرسکتے تھے اوراپنی اوراپنوں کی جان محفوظ رکھ سکتے تھے، لیکن اُنھوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ اپنی جان اور اَپنوں کی جان اپنے وطن اوراپنی قوم کے نام پر نچھاور کردیا۔
۵۔ اِسماعیل ہانیہ نے اپنی زندگی کے غم انگیز پہلو کو بھی مسرت آمیزاورحوصلہ بخش پہلو میں تبدیل کردیا، جسے ہم میں سے کوئی بھی شخص نہ تو فراموش کرسکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کرسکتا ہے، مثال کے طور پر جب ساری دنیا شاداں وفرحاں ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کررہی تھی تواَیسے پُرمسرت موقع پربھی اِسماعیل ہانیہ کے ساتھ ایک اندوہناک سانحہ پیش آیا کہ اِسرائیل نے اُن کے تین بیٹوں کوموت کی نیند سلا دیا اوراِسی پر بس نہیں ہوا بلکہ متعدد اِسرائیلی حملوں میں اُن کےخاندان کےتقریباً ۶۰؍ افراد جاں بحق ہوئے جن میں ننھے-ننھے پوتے-پوتیاں اور نواسے-نواسیاں شامل بھی تھیں۔ لیکن اِن تمام سانحوں سے مرد مجاہد اِسماعیل ہانیہ ہرگز دل برداشتہ نہیں ہوئے اورنہ ہی اُن کا حوصلہ پست ہوا، بلکہ اِس کے برخلاف اُن کے عزم وارادے میں مزید پختگی آئی۔ اِن سانحوں کے سلسلے میں جب اُن سے دریافت کیا گیا تو وہ بڑے ہی دلیرانہ انداز میں یہ کہتے نظر آئے کہ دشمن اِس دھوکے میں نہ رہے کہ میرے بیٹوں کو اَمن مذاکرات کے دوران نشانہ بنا کرہمیں اپنی پوزیشن بدلنے پرمجبورکردے گا۔ اِس کے ساتھ ہی اُنھوں نے اپنے بیٹوں اور چھوٹے-چھوٹے بچوں کی شہادت پرفخر کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں اللہ کا شکر بھی ادا کیا، پھر اُسی موقع پر اِنتہائی معرکۃ الآراء باتیں بھی کہتے نظرآئے کہ اپنے بچوں کے اِس خون سے ہم مستقبل کی اُمید پیدا کریں گے اوراَپنے مقاصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گےکیوں کہ فلسطینی عوام کے مفادات ہرچیز سے بالاتر ہیں۔
بہرحال جس روح پروراوراَمن پسند فضا میں اِسماعیل ہانیہ کی تربیت اورشخصیت وفکرسازی ہوئی اُس کا اثراُن کی زندگی کےتمام شعبوں میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اسلامک اسٹوڈینٹس وحماس جیسی تنظیموں سے جڑنے پربھی اُنھوں نےاِعتدال پسندی واَمن پسندی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ اعلیٰ اورجدید ترین تعلیم وتعلّم اوردُنیوی مناصب پر فائزہونا بھی اُنھیں اَپنے تخلیقی مقاصد سے منحرف نہیں کرسکا۔ وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے باوجود اُن کی قومی حمیت اوردینی جذبہ کسی قدر کم نہیں ہوسکا۔ قیدوبند کی صعوبتیں اوراَمن مذاکرات کو ناکام کرنے کی غرض سے اُن کے جواں سال بیٹوں اور چھوٹے-چھوٹے بچوں کی شہادت بھی اُن کے عزم و حوصلے کوپست نہیں کرسکی، اِس کے برعکس کوہ ہمالہ کی مانند اَٹل رہے اوراپنی اَمن پسندی اوراَپنی قوم کی آزادی سے کبھی بھی اُنھوں نے سمجھوتہ نہیں کیا۔ آج ہمیں اورہماری نسل کو اِن تجربات سے بالخصوص سبق لینا چاہیےکہ
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تو نگیں ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے