• منگل. اگست 19th, 2025

تعصبات ومنافرت مسئلے کا حل ہرگز نہیں

Byhindustannewz.in

اگست 7, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن

ہندوستان واحد ایسا ملک ہے جہاں کثیرتعداد میں متنوع مذاہب ومسالک پائے جاتے ہیں اورلطف کی بات یہ ہے کہ تمام مذاہب ومسالک کے ماننے والے ایک دوسرے کا دل وجان سے احترام بھی کرتے ہیں، پھرمذہبی تہواروں کے مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ مبارکبادی کا تبادلہ اِس احترام و محبت کے رشتے کو اَور بھی مضبوطی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک قومی یکجہتی، مشترکہ تہدیب وتمدن، اُخوت ومروت، محبت و یگانگت اور اِنسانیت نوازی کے فریم میں عالمی سطح پر بھی سرفہرست نظر آتا ہے۔ لیکن صد اَفسوس کہ گزشتہ چند برسوں سے تعصبات ومنافرت کے سوداگروں نے اپنی نفع خوری کے چکر میں ہمارے ملک کا سارا ماحول مکدر کررکھا ہے۔ آج کل ملک میں جس طرف بھی نگاہ اُٹھتی ہے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات ومنافرت کاوحشت ناک منظر دِکھائی دیتا ہے۔ حال یہ ہے کہ آٹھوں پہر، یہ خدشہ لگارہتا ہے کہ پتا نہیں کب اورکس وقت فرقہ وارانہ ہم آہنگی، فرقہ پرستی میں تبدیل ہوجائے اوراَمن وآشتی اور محبت ویگانگت میں شرابورہمارا یہ ملک، تعصبات ومنافرت اور تشدد کی آگ میں جھلسنے لگے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس قدر تعصبات ومنافرت آمیزماحول کا ذمہ دار کون ہے؟ اکثریت واقلیت یا پھرسیاسی قائدین؟ یہ تمام پہلو اِنتہائی حساس اور قابل غور پہلو ہیں۔ سردَست موٹے طورپر اِس سوال کا جواب تلاش کیا جائے توہم میں سے اکثر افراد یہی کہتے نظر آئیں گے کہ ملکی ومعاشرتی اور مذہبی سطح پر تعصبات ومنافرت اورتشدد کے اصل ذمہ دار سیاسی قائدین ہیں اوریہ بات ایک حدتک درست بھی ہےکہ اُنھیں کے ورغلانے سےاکثریت واقلیت ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلتے ہیں اور برسرپیکار رَہتے ہیں۔ لیکن اگر اِیمانداری، انصاف پسندی اور خوداِحتسابی کے ساتھ اِس پہلو پرغورکیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی نظر آئےگی کہ ملکی ومعاشرتی اور مذہبی سطح پرسیاسی قائدین کی بجائے تمام ترمنافرت وتعصبات اور تشدد کے ذمہ داراَکثریت واقلیت طبقات بذات خود ہیں۔ وہ اِس طورپر کہ ہردوطبقات اپنے گھریلو معاملات ومسائل میں تمام تر فیصلے بذات خود لیتے ہیں، اوراگر کچھ دقتیں پیش آتی ہیں تو اَپنے سرپرستوں، اَحباب واقارب یا پھر اَپنے سماج ومعاشرے کے معتمد علیہ افرادسے مشورہ لیتے ہیں، لہٰذا جب گھریلو معاملات ومسائل میں فیصلہ لیتے وقت اُنھیں افراد سے مشورہ لیا جاتا ہے جوہردوطبقات سے قریب تر ہوتے ہیں اور جنھیں ہردوطبقات بخوبی جانتے ہیں اور جن پر اُنھیں کامل اعتماد رَہتا ہے کہ اُن کا مشورہ اُن کے حق میں غلط نہیں ہوگا۔ نیزاگر یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص لڑنے-لڑانےمیں یقین رکھتا ہے اوروہ مذہباً منافرت پسند، فرقہ پرست اورتشدد مزاج رکھتا ہے تواَیسے انسان سے گھریلو معاملات ومسائل میں مشورہ لینا کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ لیکن حساس ترین مذہبی وسیاسی معاملات ومسائل میں فرقہ پرستوں اورمذہبی تشدد پسندوں سے ہی مشورہ لیتے ہیں، اُنھیں کو اہمیت دیتے ہیں اِس کے برعکس اپنےسرپرستوں، احباب واقارب اورمعتمدعلیہ سماج ومعاشرے کو نظر اَنداز کردیتے ہیں، کیوں؟ لہٰذا جس طرح گھریلو معاملات ومسائل میں شدت پسندوں، فتنہ بازوں اور فسادی مزاج لوگوں سے مشورہ نہیں لیا جاتا، بعینہ مذہبی اورسیاسی معاملات ومسائل میں بھی اگرمذہبی منافرت پسند اور فرقہ پرست سیاسی قائدین کو نظرانداز کردیا جائے اور اُن کے مشوروں کو ہرگز اہمیت نہ دی جائے تو اکثریت واقلیت کے درمیان مذہبی منافرت و تعصبات کی جودِیواریں کھڑی کی جاتی ہیں یقیناً وہ ریت کی دیواریں ثابت ہوں۔
ایک قابل غورپہلو یہ بھی ہے کہ آج کل جس طرح سےمتعصبین وحاسدین سیاسی قائدین کے بہکاوے میں آکر مذہبی منافرت وتعصبات کا اظہارکیا جاتا ہے اور بالخصوص جولوگ قومی املاک کوتباہ وبرباد کرنے کے درپےرہتےہیں، یا فسادات مچاتے ہیں اوراَپنے ہی ملکی برادران کو جانی ومالی نقصان پہنچانے میں یقین رکھتے ہیں، تواُنھیں معلوم ہونا چاہیےکہ اِس طرح کے تمام ترنقصانات کی تلافی اُنھیں کے اَموال کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔ وہ اِس طورپرکہ ٹیکسز کی شرحوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ روزمرہ کے استعمال کے سامان مہنگے کردیے جاتے ہیں۔ ایک معمولی سوئی سے لے کر جہاز کےغیرمعمولی پُرزے کی خریداری پربھی ٹیکس در ٹیکس لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بینکوں سے نقود نکالنے اورجمع کرنے پر بھی کبھی جی ایس ٹی اورکبھی سروس چارج کی صورت میں ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ جن پکی سڑکوں اورشاہراہوں پروہ چلتے ہیں اُن کے اخراجات بھی ٹول ٹیکس کی شکل میں اُنھیں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ اِس لیے کسی بھی طرح کی جانی ومالی اورقومی املاک کو نقصان پہنچانے سے پیشتر ہزار بار سوچنا چاہیے، اوراِس پہلو پربھی نظر رکھنی چاہیے کہ سیاسی قائدین جب بھی کبھی مذہبی منافرت وتعصبات پھیلانے کی کوششیں کریں اور ملکی وملی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑنا چاہیں، تو اَیسے مواقع پرمحض اتنا سوچ لینا چاہیےکہ جس طبقے کے خلاف منافرت کی بات کہی جارہا ہے، زندگی میں وہ کہاں کہاں کام آتا ہےاور مزید کہاں کہاں کام آسکتا ہے، چوبیس گھنٹے میں کتنی باراُس سے آمنا-سامنا ہوتا ہے، اورکیا اُس طبقے کے خلاف اظہارمنافرت کرنے کے بعد اُس سے آنکھیں ملانا آسان ہوگا وغیرہ۔ یا کم سے کم اتنا ضرورسوچ لیا جائے کہ آج جس طبقے کے خلاف لوگ ہجومی زورآزمائی کررہے ہیں اورجس فرقے کو نقصان پہنچانے کےلیےمنافرت کی راہ اختیار کررہے ہیں، تو خدا نخواستہ اگروہ بذات خود یا اُن کا اَہل خانہ، یاپھراُن کے احباب واقارب کبھی اُسی طبقے کے ہتھے چڑھ گئے جس کے خلاف اُنھوں نے ہجومی زورآزمائی کی ہے، تو اُس وقت کا منظرکیا ہوگا؟ اِس کے ساتھ ساتھ اگر مذہبی اورفرقہ وارانہ تعصبات ومنافرت کے باعث ہونے والے نفع ونقصان پربھی ایک سرسری نظرڈالی جائے، تو بلاشبہ ہرطرح کی منافرت و تعصبات کا خاتمہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے اوربڑے سے بڑے مشکلات ومسائل چٹکیوں میں حل کیے جاسکتے ہیں۔
بہرحال اکثریت واقلیت ہردوطبقات اگر تعصبات ومنافرت سے مکمل طورپربالاترہوجائیں اورہرسطح پرنفرت انگیزاورتعصب آمیز جلسہ-جلوس سے کنارہ کشی کرنے لگ جائیں، توبلاشبہ ہماراملک ومعاشرہ نہ صرف تعصبات ومنافرت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ ومامون رہےگا بلکہ شدت پسندوں کی تمام تر شازشیں بھی دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ علاوہ ازیں ملک ومعاشرے میں ہرطرف اَمن وآشتی، قومی یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورآپسی اُخوت ومروت کا دلکش وخوشگوارنظارہ دیکھنے کو ملےگا، بشرطیکہ اجتماعی طورپرہرطرح کے تعصبات ومنافرت سے توبہ کرلیا جائے کہ یہ سب کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔
ہو زہر میں خلوص تو پی جاؤں شوق سے
امرت ہو بے خلوص تو ٹھوکر سے مار دوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے