ڈاکٹر جہاں گیر حسن
حکمراں جماعت مسلسل تیسری باربرسراِقتدار ہے، لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ملک ومعاشرت کی تعمیروترقی میں یادگاراور اَنمٹ نقوش چھوڑجاتی، ہرچہارجانب قومی یکجہتی، اُخوت ومروت، اتحاد واتفاق اور محبت و یگانگت کے ترانے گائے جاتے اور فرقہ پرستی کی جگہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاماحول سازگار ہوتا۔ لیکن افسوس صد اَفسوس کہ یہ، آج بھی اپنی غیردانشمندانہ حرکتوں اوراپنی پُرانی روشوں پرقائم ہے کہ نفرت انگیزیوں کو ہی اپنا وطیرہ بنائے ہوئی ہے۔ حالاں کہ اِنہی نفرت انگیزیوں کے باعث ۲۰۲۴ء کے انتخاب میں حکمراں جماعت آسمان سے سیدھے زمین پر آگئی ہے، لیکن پھر بھی ہوش کا ناخن لینے کوتیار نہیں۔ بلکہ آج نوبت بایں جارسید کہ چھوٹی- موٹی سیاسی جماعتیں بھی آنکھیں دکھا رہی ہیں اور حکمراں جماعت کو برداشت کرنا پڑرہا ہے، تو محض اِس لیے کہ اُنھیں سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں پر موجودہ حکومت کا دارومدار ہے۔ حکمراں جماعت آج کس حد تک مجبور ہے اِس کااندازہ ’’بجٹ: ۲۰۲۴ء‘‘ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو صرف اور صرف ’’بہار و آندھراپردیش نوازی‘‘ کا نمونہ معلوم پڑتا ہے۔ چوں کہ بہار کوخصوصی ریاست کا درجہ اور آندھراپردیش کو اِسپیکر کا عہدہ نہیں مل سکا، اِس لیےاُن ریاستوں کی ناراضی کے خوف نے ہی حکمراں جماعت کو مجبورکیا کہ بجٹ میں بہاروآندھراپردیش پربطورخاص توجہ دے کہ مبادا پایۂ تخت متزلزل نہ ہوجائے۔ لیکن اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بہار اورآندھرپردیش پر جس قدر خزانے کا دہانہ کھولا گیا ہے وہ کس حد تک برقراررَہتا ہے، کیوں کہ تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو حکمراں جماعت کی طرف سے کیے گئے زیادہ تر وعدے-اِراردے محض جملے بازی اورفائل کی حد تک ہی محدود رَہتے ہیں، اوراِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے تمام تروعدے محض سیاسی ہوتے ہیں بلکہ درحقیقت اِس کے زیادہ تر اِعلانات وترجیحات تو’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دِکھانے کے اور‘‘ کے طرز پر ہوتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہےکہ جو جماعت، کامل حمایت کے ساتھ مسلسل دوباربرسراِقتدار آچکی ہو، وہ تیسری باراِقتدار میں بنے رہنے کے لیے آج مختلف اورچھوٹی-موٹی سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے، اورجوجماعت، کل تک بڑی سے بڑی سیاسی شخصیات کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی آج اُنھیں کے آگے جھکتی اور تعظیم بجا لاتی نظر آرہی ہے، حکمراں جماعت کے لیےیہ مقام عبرت کے ساتھ مقام اِحتساب بھی ہے۔
اوراِسی پر بس نہیں بلکہ جس رام راج کے سہارے حکمراں جماعت مسلسل دوبار بلاشرکت غیراِقتدار میں رہی اور دَس برسوں تک بڑے کروفر اورشان وشوکت کے ساتھ رہی، آج اُسی رام کی نگری میں وہ چاروں خانے چت نظرآرہی ہے، اور اَیودھیا اور بدری ناتھ جیسی پُراعتماد سیٹوں پر بھی عوام الناس کے درمیان حکمراں جماعت کےاعتماد کا جنازہ نکل چکا ہے۔ مزید حالیہ ضمنی انتخاب میں اِس جماعت کا اِس قدربُرا حشر ہوا ہے کہ تیرہ میں سے صرف دوسیٹوں پر ہی اُسے کامیابی مل سکی ہے، یہ بھی آنکھیں کھولنے والی ہے۔ مگر چوں کہ یہ، ناقابل یقین حد تک اقتدار کےلالچی ہے اِس لیے کرسی سے جدائی کا خیال آتے ہی اِس جماعت پر ایک ہزیانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اوراِس کا اثر یوں ظاہر ہوتا ہےکہ اِس کے قائدین زمینی حقائق کو سمجھنے اور اَپنا محاسبہ کرنے کی بجائے ملکی اورمعاشرتی سطح پراکثریت واقلیت کی کالا بازاری شروع کردیتے ہیں، اُتردیش کے مکھیا کے نیم پلیٹ پرمشتمل موجودہ بیانات کواِسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جب کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عوام الناس نے اُنھیں مسلسل دوباراقتدار کی باگ-ڈور دِے کربخوبی دیکھ لیا ہے، سمجھ لیا ہے اور بہرجہت آزما بھی لیا ہے، لہٰذا عوام الناس اب کسی طرح سے اِن کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ اِس کا ایک واضح ثبوت یہی ہے کہ اُترپردیش کے مکھیا نے مذہبی تہوار کے پردے میں جس طرح سے ملکی و صوبائی پُربہار فضا کو مسموم کرنےکی کوشش کی، تو اُسی اندازمیں ہندوستانی عوام نے اُسے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ اپنے صبروضبط اوراپنی قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرکے یہ پیغام بھی دے د یا ہےکہ قومی یکجہتی، اِتحادواتفاق اورگنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وثقافت کی علمبرداری ہندوستان کے مذہبی تہواروں کی روح میں شامل ہے، لہٰذا مذہبی تہواروں کو کوئی بھی اورکبھی بھی نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔
علاوہ ازیں قدیم ہندوستان کی تاریخ پرایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت بخوبی سامنے آتی ہے کہ ہندوستان نے بڑے بڑے حکمرانوں کو موقع دیا ہے اور پھلنے-پھولنے میں اُن کا تعاون بھی کیا ہے، لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہاں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں خواہ وہ اکثریت سے ہوں یا اَقلیت سے ہوں، ملکی و معاشرتی سطح پراُسی وقت کامیاب رہے ہیں جب تک وہ ملک ومعاشرے میں عدل وانصاف، اُخوت ومروت، اتحاد واتفاق اور یکجہتی و یگانگت کا پرچم بلند کیے رہیں، ورنہ بصورت دیگر جن جن حکمرانوں نے اکثریت واقلیت کی کالا بازاری کا لبادہ اُوڑھا اور نفرت انگیزیوں کا سہارا لیا، تو اُسی وقت سے اُن حکمرانوں کے دن لد گئے اوراُن کی جگہ نئے حکمرانوں نے لے لی۔ یہاں تک کہ انگریزی سامراج کا عہد آیا، توانگریزی حکمران بھی جب تک ملک ومعاشرہ اورعوام الناس کے مفادات کواَوّلیت اورترجیح دیتا رہا اُس وقت تک وہ بڑے عیش وآرام کے ساتھ رہا اورہندوستان نے اُسے اپنے سر اورآنکھوں پر بٹھایا، لیکن جیسے جیسے اُس کی شاطرانہ شازشوں کا علم ہوتا گیا اوراکثریت واقلیت کے درمیان’’ تفرقہ ڈالو اورحکومت کرو‘‘ کی اُس کی پالیسیاں اُجاگر ہوتی گئیں ویسے ویسے ہندوستان اُس کے خلاف سراپا احتجاج بنتا گیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ ۱۰۰؍ برسوں تک چلنےوالا انگریزی سامراج بھی ہندوستان کی انقلابی آندھی کے سامنے ٹک نہ سکا اورہندوستانیوں کو غدارکہتے کہتے بالآخرایک دن انگریزی سامران خود ہی ملک بدرہوگیا۔
اِس پس منظرمیں دیکھا جائے تو ہندوستان آج بھی اپنی اُسی روش پرقائم ودائم ہے، چناں چہ ۱۹۴۷ء سے لے کراَب تک کے احوال دیکھنےکے بعد اِس راز سے بخوبی پردہ اٹھتا ہے کہ مسزگاندھی کی ایمرجنسی کا زمانہ ہو/آنجہانی راجیوگاندھی کا، جب کبھی ملک ومعاشرہ اورعوام الناس کےمفادات سے کھیلواڑ کیا گیا اوراقتدار میں جمے رہنے کے لیےسیاسی اُتھل-پتھل کا ماحول بنایا گیا تو ہندوستان نے ہرحکمراں کو اِقتدارسے نکال باہر کیا ہے۔ یہاں تک کہ بذات خود حکمراں جماعت کوبھی اُسی صورت میں موقع دیا گیا کہ جب عوام الناس نے یہ محسوس کیا کہ منموہن سنگھ کی حکومت، اُن کے مفادات اورترجیحات کو نظر انداز کررہی ہے۔ اِس کے باجود اگرحکمراں جماعت اِن تمام انقلابی واقعات وحالات سے سبق نہیں لے رہی ہے اورہوش میں نہیں آرہی ہے، تووہ دن دور نہیں کہ ہندوستان اِسے بھی ایک نہ ایک دن اقتدارسے نکال باہرکردے، بلکہ آج کل پیش آنے والے سانحات اورآثار وقرائن بتاتے ہیں کہ۲۰۲۴ء انتخاب کے بعد سے اب تک جتنے بھی رجحانات سامنے آئے ہیں اورآرہے ہیں وہ ایک طرف ملک ومعاشرے کے حق میں نیک فال ہیں، تودوسری حکمراں جماعت کے حق میں بڑی بدشگونی بھی ہے، اِس لیے حکومت کواِن واقعات وسانحات سے بالخصوص سبق لینےکی ضرورت ہے، اوراِس کے لیے لازم ہے کہ ہندوستان نے جن عوامی مفادات وحصولیابیوں کی خاطراُنھیں اقتدارسونپا ہے وہ اُن مفادات و حصولیابیوں کواَوّلیت اورترجیح دے۔ نیزملکی ومعاشرتی سطح پرطبقاقی اونچ نیچ، مذہبی منافرت، مساجدومنادر، فرقہ پرستی اورآپسی تعصب وعناد کے خاتمے کو یقینی بنائے اور ملک ومعاشرت کی تعمیر وترقی کے ساتھ امن وآشتی، قومی یکجہتی، اُخوت ومروت، گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وثقافت، بین المذاہب ہم آہنگی وغیرہ کو فروغ دے۔

