ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت انسان کو پیدا فرمانے کا ارادہ کیا اور اپنے ارادے کو فرشتوں پر ظاہر فرمایا تو فرشتوں نے پوچھا:
یااللہ! تو اس انسان کو پیدا فرمائےگا جو زمین پر فساد مچائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰئِكَةِ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ اِنِّي اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۰(البقرہ)
یعنی جب اللہ رب العزت نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والاہوں، اس پر فرشتوں نے کہا کہ یااللہ! تو زمین میں اس کوپیدا کرےگا جو زمین میں فساد مچائےگا اورخوں ریزی کرےگا، حالاں کہ ہم تیری حمد وثنا اورتیری پاکی بیان کرتے ہیں، اِس پراللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: اے فرشتو! جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
پھرجب حضرت آدم کی پیدائش ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو سجدے کا حکم فرمایا، سب فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس غرورمیں آگیا اوریہ کہتے ہوئے سجدے سے انکارکربیٹھا کہ میں آگ سے پیدا ہوں اورآدم مٹی سے، بھلا آگ مٹی کے سامنے کیسے جھک سکتی ہے؟ اور یوں فرشتوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کردیا، جب کہ ابلیس نے اپنی اَنا کا مسئلہ بنالیا اور تکبرو غرور میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بارگاہ الٰہی کا معتوب ومردود ٹھہرا۔
اُسی دن سے انسان اورشیطان کے درمیان دشمنی کی شروعات ہوگئی۔ شیطان نے بارگاہ الٰہی میں اس دشمنی کا اعلان ہی نہیں کیا، بلکہ اللہ رب العزت سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی اجازت بھی مانگ لی اورگمراہی پھیلانے میں لگ گیا، یہاں تک کہ اس نے حضرت آدم کوبھی اپنے مکروحیلہ سے اُس درخت کا دانہ کھانے پر مجبورکردیا جس کے قریب جانے سے بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے منع فرمایا تھا، اِس کے باوجود شیطان نامراد ہی رہا، کیوں کہ حضرت آدم نے اپنی اس چوک پراِس قدرعاجزی اورآہ و زاری کا مظاہرہ کیا اورایسی خالص توبہ کی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُنھیں ’’مجتبیٰ‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا۔
چناں چہ یہیں سے یہ طے پا گیا کہ جوتکبروغروراوراَنا وخودستائی میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی بسرکرے گا اور خطا و نقص ظاہر ہونے کے بعد بھی اُس پر اَڑا رہے گا وہ عزازیل وابلیس اورعذاب الٰہی کا سزاوارہوگا اور جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرےگا اوربھول-چوک اورلعزش کی صورت میں بھی عاجزی وانکساری کے ساتھ خالص توبہ و استغفارکرےگا وہ اللہ سبحانہ کا نیک اور محبوب ومقبول بندہ ہوگا۔ اِس کو ہم دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کے عمل سے دین کو نقصان پہنچے وہ ابلیس کی راہ پر ہے اور جس کے عمل سے دین کو نفع پہنچے وہ اللہ کی راہ پر ہے۔
آج بھی ہم سب کے لیے یہ ایک کسوٹی ہے جس پر ہراچھے بُرے کو پرکھا جا سکتا ہے، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جواِنسان جس رتبے اور جس حیثیت کا ہوتا ہے اِبلیس اُسی اعتبارسے اُس انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اُسے سیدھی راہ سے بھٹکاتا ہے، چناں چہ ایک عالم کو علم کے پردے میں، ایک عابدشب زندہ دارکو عبادت کے لبادے میں، ایک سخی اوربا اخلاق انسان کو سخاوت واخلاق کے خول میں، ایک ماں کو ممتا کے سہارے، ایک باپ کواَولاد کی محبت کے جال میں پھانس کر، گویا وہ بڑی صفائی اور چترائی سے آدمی کے دل پر اَپنا قبضہ جماتا ہے اورپھر اُسے حق وناحق کے درمیان امتیازنہیں کرنے دیتا۔
انبیا واولیا کی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ تمام باتیں دو-دوچارکی طرح واضح ہوجائیں گی کہ ابلیس نے جب کبھی کسی کو راہِ حق سے گمراہ کرنے کی کوشش کی، تو اُس کے رتبے، عظمت اورتعلق ورشتے کا ضرور اِستعمال کیا، مثال کے طورپر حضرت ہاجرہ کو ممتا کے سہارے نافرمانی کے لیے ورغلانے کی کوشش کی، حضرت ابراہیم کو بیٹے کی محبت کا فریب دے کر اللہ سبحانہ کے حکم پرعمل کرنے سے روکنا چاہا اور خود حضرت اسمٰعیل کو جان کی دُہائی دے کر خالق ومالک کی طاعت وفرماں برداری سے رُک جانے کے لیے اُکسایا، یہ الگ بات ہے کہ اِن نیک بندوں پر اِبلیس کا کوئی زورنہ چل سکا اوروہ اپنا سا منھ لے کررہ گیا۔
اِس سےایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ابلیس کا کام ہے بندے کوراہِ حق سے روکنا، ورغلانا، اُکسانا، فتنہ وفساد پھیلانا، امن وسکون غارت کرنا اوردین کو نقصان پہنچانا اورآدمی کا کام ہے لوگوں کو خیروصلاح کی دعوت دینا اوربُرائی و فسادسے روکنا، ملک ومعاشرے اوردنیامیں امن وشانتی کے لیے کوششیں کرنا، دلوں سے حسدوکینہ اورتکبروغروردورکرنااوراگرجانے انجانے میں کبھی کوئی خطا ہوبھی جائےتوعاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں خالص توبہ و استغفارکرنا۔
چناں چہ اب اگرہم کسی کو کسی کے خلاف اُکساتے ہیں، یا ہمارے کسی بھی عمل سے فتنہ وفساد جنم لیتا ہے، ملک ومعاشرے میں کسی بھی طرح کی بداَمنی پھیلتی ہے اور کسی بھی طورسے دین کا نقصان ہوتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب ابلیسی اورشیطانی عمل ہے، جن سے پرہیزکرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابلیس نےحضرت ہاجرہ، حضرت ابراہیم اورحضرت اسمٰعیل سے جو کچھ کہا، کیا وہ غلط تھا؟ کیا ایک باپ کے لیے یہ عمل زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کوذبح کرے؟ کیا ایک ماں یہ برداشت کرسکتی ہے کہ اس کے بیٹے کو ذبح کردیا جائے، یا ایک انسان یہ چاہے گا کہ اس کے گلے پر چھری چلا دی جائے اورپھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بھی توخود جان کی حفاظت کے لیے دیت اور قصاص جیسے قوانین کا انتظام فرمایا ہے، بظاہرایسے انسان کوتودُنیا مجنون ودیوانہ ہی کہے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بات آجائے اللہ سبحانہ کی رضا کی اور اُس کے حکم کی تعمیل کی، تو اللہ سبحانہ کی مرضی میں جینے مرنے والے بندے ایک بیٹا اورایک جان کیا، بلکہ جتنی اولاد ہوں اور جتنی بارجان ملے سب کواللہ سبحانہ کی مرضی پر قربان کردینا ہی اصل سمجھتے ہیں، کیوں کہ ایسے نیک بندے پہلے اللہ سبحانہ کے مطیع وفرماں بردار ہوتے ہیں اورپھربعد میں اُن کا کوئی رشتہ یاناطہ ہوتا ہے، کیوں کہ ارشاد ربانی ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۱۶۲ لَا شَرِیْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۱۶۳(الانعام)
یعنی بےشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا مرنا اللہ سبحانہ کے لیے ہی ہے، اُس کا کوئی شریک وسہیم نہیں، اور مجھے اِسی بات کا حکم دیا گیا ہےاورمیں سب سے پہلے مسلمان ہوں (اِس کے بعد کچھ اور)۔
کیا یہ تمام باتیں ہمیں اِس بات پرغوروفکرکرنے کی دعوت نہیں دیتیں کہ ہم کوئی بھی قدم اُٹھانے، یا کسی بھی طرح کا کوئی حکم و فیصلہ سنانے سے پہلےاپنے دلوں میں جھانکیں کہ واقعی ہم جو قدم اُٹھانے جارہے ہیں، یا جوحکم اورفیصلہ سنانے جا رہے ہیں، اُس میں اَنا و خودستائی اور تکبروغرور کا عنصرتوشامل نہیں؟ کہیں ایسا تونہیں کہ ہمارا یہ عمل محض ایک رسمی فریضے کی ادائیگی تک محدود ہو اوربس؟ اگر ایسا ہے تومعاف کیجئے کہ ہمارے نزدیک یہ اصل فرائض کی ادائیگی ہے ہی نہیں، بلکہ یہ ایک طرح سےرسم فرائض اورذمے داری سے ہاتھ جھاڑناہے، اِس لیے کہ آدمی کی ذمے داری صرف یہ نہیں ہے کہ رسمِ فرائض کی ادائیگی کردی جائے۔ بلکہ ساتھ میں یہ بھی دیکھنا اہم ہے کہ اس رسمِ فرائض کی ادائیگی سے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کہیں اِس سے کوئی ہنگامہ تو پیدا نہیں ہورہاہے؟ کہیں کسی کی عزت توتارتار نہیں ہورہی ہے؟ اورکہیں دین کا کوئی نقصان تو نہیں ہورہا ہے؟۔
غرض کہ آج ہمارے لیے یہ لازم ہوگیا ہے کہ اپنے اعمال وکردار کو پرکھیں کہ کیا ہماراعمل آدمیت کے پیمانے پر مکمل اُترتا ہے؟ اگر ہاں! تواللہ سبحانہ کا شکرادا کریں اوراُس پرمضبوطی سے قائم رہیں، کیوں کہ ارشاد ربانی ہے کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ۷(ابراہیم) یعنی اگر تم شکرگزاربنوگے تو میں تمھیں اورزِیادہ عطا کروں گا۔ اگرہماراعمل آدمیت کے پیمانے پرمکمل نہیں اترتا، تو اللہ سبحانہ کی حفاظت طلب کریں اوراَپنے قلوب سے حسد وکینہ اورتکبروغرور دورکریں، نیزاُس دن سے ڈریں جس دن سب لوگ اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ إِلَى اللهِ۲۸۱(بقرہ) یعنی اُس دن سے ڈروجس دن تم لوگ اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں پیش ہوگے۔ اِس کے ساتھ ہی توبہ کریں کہ اللہ سبحانہ توبہ کرنے والوں کواپنا محبوب رکھتا ہے۔ ارشادربانی ہے: اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ ۲۲۲(بقرہ) یعنی واقعی اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
ورنہ کوئی بعید نہیں کہ قیامت میں اللہ سبحانہ کے نزدیک مجرم قراردیے جائیں کہ ابن آدم ہونے کے ناطے عمل کی جو ذمے داری ہمیں دی گئی تھی وہ ہم سے ادا نہ ہوسکی، اِس لیےا ِس پہلو پر بڑی سنجیدگی سے غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے۔