ڈاکٹر جہاں گیر حسن
محترم قارئین! موجودہ عہداِنتہائی ترقی یافتہ عہد مانا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی لمحہ ایسا ہو کہ جب ہم جدید ترین ٹکنالوجی اورنئی نئی ایجادات سے واقف نہ ہوتے ہوں۔ لیکن اِن تمام اِنسانی ترقیوں اور حصولیابیوں کے باوجود ہم آپسی تعلقات واَخلاقیات کے اعتبارسے اِنتہائی پست ہوچکے ہیں، مثلاً: آج ہم ایک نشست گاہ (Waiting Room) اور قیام گاہ (Home)پر ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے ناآشنا ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک اِنسان بدحال پڑا تڑپ رہا ہوتا ہے مگر اُس کے دکھ-درد کی فکر کرنے کی بجائے ہم اُس کی وِیڈیو کلپ بنانے میں مست اورمگن رہتےہیں۔ جب کہ اللہ سبحانہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مدد کا معاملہ رکھنے کا حکم دیتا ہےاور ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے پرہمیں متنبہ فرماتا ہےکہ ’’اے انسان! تمھیں کیا ہوگیا ہےکہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے‘‘ (صافات:۲۵)۔ پھر ایک طرف ایک اِنسان ہمارے پڑوس میں کھانے-پینے کو تَرس رہا ہوتا ہےاوردَانے دانے کو محتاج رہتاہےلیکن دوسری طرف ہمارے گھروں میں ایک سے بڑھ کر ایک مرغن غذائیں خراب ہوجاتی ہیں، سڑ-گَل جاتی ہیں اورہمیں توفیق نہیں ہوتی کہ کچھ اپنے پڑوس میں بھجوا دیں۔ باوجودیکہ حدیث پاک میں واضح طورپرہےکہ’’وہ مومن نہیں ہے جو خود تو بھرپیٹ کھائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔‘‘ (الادب المفرد، حدیث:۱۱۲)
مزید اَگر کبھی حکومت/ انتظامی اُمور کی باگ-ڈورہمارے ہاتھوں میں آجاتی ہے، توہم فرعونِ وقت بن جاتے ہیں۔ نیزیہ جانتے ہوئے کہ ہمارے پاس جو کچھ اِختیارات ہیں وہ سب چند رُوزہ اور کرائے کے ہیں، پھر بھی اللہ سبحانہ کی مخلوق ہمیں کیڑے-مکوڑے کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ ہمارے قلب وجگر میں نہ تواَللہ سبحانہ کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس حیا ہوتی ہے۔ حالاں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہماری حیثیت کیا ہے، ہماری بساط اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ اورجسے قرآن کریم میں کچھ اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ’’بے شک اِنسان پرایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا۔ ہم نے اُس کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔‘‘(سورۂ دہر:۱-۲)
ایک جگہ یوں اِرشاد ہواکہ’’ اِنسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ پانی کےایک قطرےسے پیدا کیا گیا ہے جو پُشت اور کولہے کی ہڈیوں کے بیچ سےگزر کر باہر نکلتا ہے۔‘‘(سورۂ طارق:۵-۷)
گویا ایک زمانہ ایسا تھاکہ ہم انسانوں کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی اور ہم مرد-عورت کےایک مخلوط نطفے سے وجود میں آئے ہیں، لہٰذا اِس چند رُوزہ اوراُدھارکے وجود پر اِترانا ہمارے لیےاِنتہائی نادانی اورسخت ناعقلی ہے۔ پھر ہم اِنسانوں کو یہ بھی یاد رَکھنا چاہیےکہ جوعظیم ویکتا ذات اِس پر قادرہے کہ وہ ایک مخلوط نطفے سے ہم انسانوں کی ایک وسیع وعریض دنیا وجود میں لادے، تو بدرجہ اَولیٰ وہ اِس پر بھی قادر ہے کہ اِنسانوں کوپھر سےخاک میں ملا دےاور دوبارہ اُن کو اُٹھا کراُن سے اُن کے کیے کا حساب لے،کیوں کہ جب وہ آسمان پھاڑ سکتا ہے، ستارے بکھیرسکتا ہے اور قبریں زِیروزَبر کرسکتا ہے، تووہ ہمارے ساتھ بھی جوچاہے معاملہ کرسکتاہے۔ چناں چہ اے انسان! تجھے غفلت اور دھوکے میں ہرگز نہیں رہنا چاہیے، اوراَے انسان! کس چیزنے تجھے اپنےکرم کرنے والےرب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا، جس نے تجھے پیدا کیا، پھرٹھیک بنایا، پھرہموار فرمایا، جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔ (سورۂ انفطار: ۶-۸) پھراُس نے پوری دنیا تیری مٹھی میں ڈال دی مگر تواَپنے رب کریم کے اِس فضل وکرم اوراِحسان کو تسلیم کرنے اوراُس کی رضا و خوشنودی کا خیال رکھنے کی بجائے اپنی خواہشات وشہوات کے سمندرمیں ڈوب گیا، یہاں تک کہ اپنے چھوٹے- موٹےفائدے کے لیے اللہ کی مخلوق کو تہہ تیغ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ حالاں کہ تجھے خوب معلوم ہے کہ’’جوشخص اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگا اُس کا معاملہ حدسے بڑھ گیا‘‘(کہف:۲۸)۔ یہ تو عام اور دنیا داراِنسانوں کی بات ہے، لیکن اگرغوروفکر کیا جائے تومحسوس ہوگا کہ آج ہم نام نہاد خواص اوررَسماً دین دارکہے جانے والےعلما بھی اَحکام اِلٰہیہ کی دھجیاں اُڑانے میں پیچھے نہیں ہیں، بلکہ بات بات پر ایک- دوسرے کے خلاف صف آرا ہونا ہماری آن -بان اورشان بن گئی ہے (اِلاماشاءاللہ)۔ ہمیں دوسروں کی آنکھوں میں موجود تنکا تو بخوبی دِکھ جاتا ہے مگراَپنی ہی آنکھوں میں موجود شہتیر نظر نہیں آتا۔ جب ہم علمی وتحقیقی تنقید کرنے پر اُترجاتے ہیں تو اَپنے مخالفین کی بخیہ اُدھیڑکررَکھ دیتے ہیں لیکن جب ہم پر تنقید کی جاتی ہے تو اَپنا محاسبہ کرنے کے بجائے ہم مخالفین کو ہی اَخلاقیات کا درس دینے لگتے ہیں۔ جوباتیں ہم اپنے اَسلاف اورمشائخ کی شان میں اِنتہائی گستاخی سمجھتے ہیں اورجنھیں برداشت کرنے کے لیے ہم قطعی تیارنہیں ہوتے، وہی باتیں دوسروں کے اَسلاف اورمشائخ کی شان میں کہتے ہوئے ہم فخرمحسوس کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات مخالفین کی تنقید کوبالعموم ہم بدبختانہ قرار دیتے ہیں اور اَپنی تنقید کو جرأت مندانہ قدم، جب کہ یہ دونوں باتیں ملی ومعاشرتی یا دینی سطح پرکسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔
مزید جس ذات-برادری کو رَب کریم جل شانہ نے ہمارے لیےمحض خاندانی شرافت اورشناخت وتعارف کا ایک ذریعہ بنایا ہےآج اُسی کے پردے میں مقابلہ آرائی کے بطورایک دوسرے پرفخروتفاخراَور اَپنی برتری کا اِظہارکرتے ہوئے نہیں تھکتے، بلکہ ایک دوسرے کو حقیر ورَذیل سمجھنا ہم اپنا فرض منصبی اورحق سمجھتے ہیں جب کہ اِس سے پرہیز کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
جیسا کہ اِرشاد رَبّانی ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمھیں مرد اَور عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم)کیا، تاکہ تم ایک- دوسرے کو پہچان سکو۔ بےشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جوتم میں زیادہ پرہیزگارہو، بےشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبررکھنے والا ہے۔‘‘(حجرات:۱۳) لہٰذا اِحساسِ برتری اَور کسی کو حقیر وکمتر سمجھنے سے بہرحال بچنا چاہیے اور یہ اَزبر کرلینا چاہیے کہ شرافت کا صحیح معیار تقویٰ وپرہیزگاری ہے محض خاندان وقومیت نہیں۔
