ڈاکٹر جہاں گیر حسن
گزشتہ دنوں برسراِقتدارجماعت نے اپنی ایک ماہ کی مدت پوری کرلی، اور اِس دوران جس قدراَلمناک اورغیراِطمینان بخش معاملات سامنے آئے ہیں اُن سب کا رپورٹ کارڈ پیش کرکےمحترمہ سپریا شرینیت نے برسراِقتدارپرزبردست حملہ کردیا۔ حالیہ رپورٹ کارڈ میں برسراِقتدارکے خلاف تقریباً ۱۳؍ معاملات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے اور اُن تمام معاملات میں برسراقتدارکی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں یہ رپورٹ کارڈ برسراِقتدارجماعت پر زبردست حملہ ہونے کے ساتھ ممکنہ طورپر احتیاطی بھی ہو، اِس لیے اِس رپورٹ کارڈ پر اِدھر اُدھر کی بات کرنے کی بجائے ہرسیاسی جماعت اور ہردانش ور کی طرف سے اِس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے کہ پچھلے دس برسوں سے جوحزب اختلاف بالکل ناکارہ تھا اور کسی کام کا نہیں تھا آج وہ منظم اندازسے برسراِقتدارجماعت کوملکی وعوامی ترجیحات پراَزسرنوغوروفکرکی دعوت دے رہا ہے اورملکی وعوامی مسائل ومشکلات پراُسے سنجیدگی سے قدم اُٹھانے کے لیے مجبوربھی کررہا ہے۔ قوم مسلم کے بہت سے بہی خواہان اوردانشوران اِس رپورٹ کارڈ کی محض اِس لیے مذمت کررہے ہیں کہ اس میں ماب لنچنگ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور اِس کے درپردہ انتہائی دانشمندانہ انداز میں یہ باور کرانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ اِس میں مسلم مسائل کا ذکر نہیں ہے۔ چناں چہ ہم ایسے دانشوران ملک ملت سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردانہ حملوں میں افواج اورعام شہریوں کا شہید ہونا ، دردناک ریل حادثے میں مسافروں کی اموات، نیٹ پیپر لیک اور یوجی سی نیٹ پیپر لیک معاملہ، اشیائے خوردنی کی مہنگائی، ٹول ٹیکس، سی این جی کی قیمت میں اضافہ، کرنسی اوراِیف ڈی آئی میں گراوٹ، بےروزگاری وغیرہ کیا یہ سب معاملے مسلم اقلیت کے نہیں ہیں؟ کیا اِن معاملات میں نفع ونقصان کا اثر اقلیت کی زندگیوں پر نہیں پڑتا؟ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ماب لنچنگ کا ذکرہونا چاہیے تھا لیکن صرف اِس لیے نہیں کہ یہ معاملہ مسلم اقلیت سے جڑا ہوا بلکہ اِس لیے اس کا ذکرہونا چاہیے تھا کہ یہ، عوامی اورملکی مسائل سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ یہ باتیں ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہرسیاسی جماعت، عوام الناس کو اُسی قدر فوقیت دیتا ہے جس قدر کہ وہ اُس سے فائدہ اُٹھا سکے۔ رہی بات مسلم اقلیت کے محض ووٹر کے طورپر اِستعمال کرنے کی، تو اِس معاملے میں اکثریت کے ساتھ بھی یہی ہوتا آرہا ہے کہ حزب اختلاف ہویا برسراِقتدار جماعت، وہ بھی اکثریت کو محض ایک ووٹر کی حد تک ہی سمجھتی ہیں، مسلم اقلیت تو صرف ایک بہانہ ہوتا ہے اقتدار تک پہنچنے کے لیے۔ نقصانات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اَقلیت کے بالمقابل زیادہ نقصانات اکثریتی طبقہ اٹھاتا ہے۔ مثلاً تجارت کا میدان ہو یا تعلیم وتعلّم کا، یا بےروزگاری کا، اگر دس فیصد مسلم اقلیت، نقصان میں رہتی ہے تو بیس فیصد اکثریت خسارے میں رہتی ہے۔ علاوہ ازیں غیرقانونی قبضہ واری کی بات کی جائے اورصرف اُن جگہوں کا ایک سرسری جائزہ لے لیا جائے کہ جہاں کہیں بھی قبضہ واری کے معاملات سامنے آئے ہیں اورجہاں کہیں بھی بلڈوزر چلائے گئے ہیں، تو قومی اراضی اورشاہراہوں پر قبضہ واری تحقیقات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائےگی کہ اکثریت کے نقصان کے بالمقابل اقلیت کے نقصانات زیرو فیصد ہوئے ہیں۔ البتہ! چند نامی گرامی اقلیتوں کے مکانات اورزمین-جائیداد پر جو بلڈوزر چلائے گئے ہیں تو وہ محض اِس لیے نہیں کہ وہ اقلیتی طبقے سے متعلق تھے بلکہ اِس لیے اُن کے ساتھ ایسا ظالمانہ رویہ اپنایا گیا کہ وہ برسراقتدارجماعت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے تھے، اور اَیسے واقعات محض چند گنے چنے واقعات ہی کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ ہندوستانی سطح پرسرکاری اَراضی کو خالی کرانے اور قومی شاہراہ کو وسیع کرنے کے سلسلے میں جس قدر اقلیتی عبادت گاہوں کونشانہ بنایا گیا اوراُنھیں مسمار کیا گیا ہے اُن سے کہیں زیادہ اکثریتی عبادت گاہیں توڑی گئیں اورمنادر گرائے گئے ہیں، اِس کی ایک بڑی مثال اجودھیا رام مندر تعمیر ہے کہ شاہراہ کی توسیع اور شہری ترقیات کے نام پراگر کہیں دَس مساجد مسمار کی گئیں تو وہیں پچاس منادر توڑے گئے اور عوامی سطح پر بات کی جائے تو جس قدر اقلیت کے مکانات کو زَک پہنچایا گیا اُس سے ہزارگنا زیادہ اکثریت کے مکانات منہدم کیے گئے۔ پھر ہمارے جو دانشوران ماب لنچنگ کولے کر حزب اختلاف پر لعن طعن کررہے ہیں دراصل وہ جانے انجانے میں برسراقتدار کے حق میں راہ ہموار کررہے ہیں اور حزب اختلاف کو کمزورکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔
آج ہم ماب لنچنگ کے سلسلے میں راہل گاندھی اوراَکھلیش یادو سے یہ سوال کرتے پھررہے ہیں کہ یہ لوگ ماب لنچنگ کے موضوع پر کیوں نہیں بول رہے ہیں اور خاموش کیوں ہیں؟ کیا مسلمانوں نے اِسی دن کے لیے اُنھیں ووٹ کیا تھا وغیرہ؟ لہٰذا ہمارے خیال سے حزب اختلاف کے بالمقابل ماب لنچنگ سے متعلق سوال تومسٹرنتیش کماراورمسٹرنائیڈوصاحبان سے بطورخاص دریافت ہونا چاہیے کہ وہ برسراقتدارجماعت کے بنیاد گزاراورمعاون ہیں اوراُن کی باتیں مسٹروزیراعظم کے نزدیک زیادہ سنی جائیں گی۔ اگر بات مسلم ووٹ حاصل کرنے کی ہے تو یہی کام حزب اختلاف کی طرح نتیش کماراورنائیڈو نے بھی کیا ہے۔ نیزآج ہم حزب اختلاف سے متعلق محترمہ سپریا شرینیت پریہ اِلزام دھرنے میں بڑے جوش وولولہ کااظہار کررہے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے رپورٹ کارڈ میں ماب لنچنگ کا ذکر نہیں کیا ہے، اُن کی بڑی چوک ہے یہ درست ہے، لیکن کیا کبھی ہم نے اپنے اُن اقلیتی قائدین کی خبر لی ہے جن کو مسلمانوں نے ایوان کا ممبر بنایا ہے اورعزت ووقاربخشا ہے؟ کیا کبھی ہمارے اقلیتی قائدین نے ماب لنچنگ کے خلاف لب کشائی کرنے کی جرأت وہمت جٹائی ہے؟ کیا ہمارے اقلیتی قائدین نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے ماب لنچنگ پر سنجیدگی سے کبھی کوئی بات کی ہےاور اِس مسئلے کا حل نکالنے پرزوردیا ہے؟اورکیا کبھی ہمارے اقلیتی قائدین ماب لنچنگ کے شکاراَفراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں باتیں کی ہیں اور کیا کبھی اُن کے اہل خانہ کے دکھ-درد بانٹنے کی کوششیں کی ہیں جن اُفراد کے ساتھ ماب لنچنگ کا سانحہ پیش آیا ہے؟
بہرحال ماب لنچنگ جیسےحساس مسائل میں ہمارے دانشوارن قوم وملت بالخصوص محررین ومقررین کواِنتہائی سنجیدہ کا مظاہرہ کرنا چاہیےاورسیاسی جماعتوں پرتحریری ایٹم داغنے کی بجائے اپنی قوم کے سامنے کچھ ایسا لائحہ عمل پیش کرنا جسے اختیار کرکے ہماری قوم ماب لنچنگ سانحے سے نجات حاصل کرسکے اوراِس سلسلے میں دُستورہند کے مطابق کوئی مضبوط اورٹھوس دفاعی قدم اختیار کرسکے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ایسے حالات میں جب کہ مسلم اقلیت کے دکھ-درد اور مسائل ومشکلات سے متعلق سیاسی جماعتیں جانبداری سے کام لے رہی ہیں تواُن سیاسی جماعتوں کے سامنے رونے گڑگڑانے اوراُنھیں کوسنے کاسنے سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنا سارا فوکس اِس پہلو پرمرکوز رکھنا چاہیے کہ ہمارے اقلیتی قائدین، خواہ جس سیاسی جماعت سے منسلک اور متعلق ہوں، وہ کم سے کم اقلیتی مسائل ومشکلات کے موضوع پرایک ذہن اورہم خیال رہیں اورجہاں کہیں بھی اقلیتی حق تلفی ہورہی ہو، وہاں فوراً بیک زبان آوازبلند کریں۔ ورنہ ہماری آوازیں اور ہماری تحریریں محض سدا بہ صحرا ثابت ہوں گی اور ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
