• منگل. اگست 19th, 2025

اپوزیشن کے سامنے لاجواب حکمران…

Byhindustannewz.in

جولائی 7, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن


ایک زمانہ تھا کہ کچھ سیاسی جماعتیں راہل گاندھی کو’’پپو‘‘کہتے نہیں تھکتی تھیں اور بساط سیاست پر اُنھیں ناکارہ ثابت کرنے کے تمام تر حربے بھی اِستعمال کرتی تھیں، لیکن آج انھیں سیاسی جماعتوں نے راہل گاندھی کو نہ صرف حزب اختلاف قائد کے طورپر قبول کرلیا ہے بلکہ اُن کے آگے خود کو بےبس اور لاچار بھی محسوس کررہی ہیں اوراَیسا کیوں نہ ہو کہ راہل گاندھی نےاپنی محنت وجانفشانی اور تجربات سے اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کو اِس پر مقام پر لاکھڑا کردیا ہے کہ اُن کے لیے’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ والی صورت حال بن گئی ہے۔ اس سے پہلے برسراقتدار جماعت بالقصد عوامی وملکی سوالات کے جوابات سے بچتی رہی تھی، یہاں تک کہ وہ سوالات کرنے والوں کے ساتھ غیرجمہوری اقدام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھی لیکن آج راہل گاندھی نے اُن کے سامنےکوئی ایسا راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے کہ جس کے سہارے وہ سوالات کے جوابات دینےسے فرار اِختیار کرسکے۔
گزشتہ دنوں ایوان میں حزب مخالف کے قائد راہل گاندھی بڑی بےباکی کے ساتھ یہ کہتے نظرآئےکہ مسٹر وزیراعظم ملک کے ہرطبقے اور ہرشخص کو خوف زدہ کرتے ہیں جب کہ کانگریس ملک کے ہرفرد بشر کو سچائی، عدم تشدد اور بےخوفی کے ساتھ جینے کاموقع فراہم کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ مزید برآں ایجنسیوں کے غلط استعمال، منی پورسانحہ، بےروزگاری، مہنگائی، اگنی ویر، کسانوں کی تحریک کو دَبانے جیسے مسائل پر برسراقتدار جماعت کو بخوبی آئینہ دکھاتے نظرآئے۔ اِن باتوں نے فطری طورپر راہل گاندھی کو’’پپو‘‘ کہنے والوں کے کان کھڑے کردیے ہیں۔ اِس سے پہلے مسٹرراہل گاندھی نے جب اپنے خطاب کا آغاز کیا اورجیسے ہی اکثریت کے بھگوان شیو اور سکھوں کے گرو، گرونانک کی تصاویر دیکھایا تو اِسپیکرمہاشے سے رہا نہ گیا اور وہ مزاحمت پراُترآئے، پھرتو یہ سلسلہ بہ سلسلہ چلتا رہا اور اُس وقت تک باقی رہاجب تک مسٹرراہل گاندھی نے اپنا خطاب ختم نہیں کیا۔ راہل گاندھی کا خطاب کس قدر دھار دارتھا اور کس قدرگرم لوہے پر ہتھوڑے کی مانند تھا اِس کا اندازہ پے درپے مسٹر وزیراعظم، مسٹر وزیرداخلہ، مسٹر وزیردفاع، مسٹروزیرزراعت ودیہی ترقی وغیرہ کی مزاحمتی مداخلت سے لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر حزب مخالف قائد کی زبان سے جیسے ہی یہ جملے نکلے کہ ’’مسٹر مودی پورا ہندوسماج نہیں ہے۔ بھاجپا پورا ہندوسماج نہیں ہے۔ آر ایس ایس پورا ہندوسماج نہیں ہے‘‘ مسٹر وزیراعظم سے برداشت نہیں ہوسکا اور وہ بذات خود مزاحمت پر اُترآئے۔
اپنے خطاب میں راہل گاندھی نےمزید کہا کہ برسراقتدار جماعت مسلسل دستور ہند پر حملہ آور ہورہی ہے۔ اِس کی بہتیرے مثالیں انتخاب کے پہلے اوراِنتخاب کے دوران دیکھنے کو ملیں۔ ہمارے متعدد لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ مجھ پر حملہ کیا گیا۔ ہمارے خلاف ۲۰؍ مقدمات درج کرائے گئےاور دوسال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ہمیں بےگھر کردیا گیا۔ ۲۴؍ گھنٹے ہمارے خلاف میڈیا کو لگایا۔ ۵۵؍ گھنٹے تک ہم سے تفتیش کی گئی اور یہ تمام چیزیں مسٹر وزیراعظم کےحکم پر رونما ہوئیں۔ لیکن اِس کے باوجود ہم نے بڑی سے بڑی تکلیف اور تشدد کو زہرمار کرلیا تو محض اِس لیے کہ ہم شیو شنکر کی پناہ میں ہیں۔ جس طرح اُنھوں نے زہرپی لیا اور نیل کنٹھ ہوگئے ہم نے بھی اُس سے سبق لیا اور زہر پیتے رہے۔ مزید شیو کی علامتوں کا ذکرکرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ شیو کے بائیں ہاتھ میں ترشول ہمیں عدم تشدد کا پیغام دیتا ہے اور یہی دائیں ہاتھ میں ہوتا تو تشدد کی علامت بن جاتا۔ اِسی کے ساتھ اُنھوں نے اسلام کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پیغمبر اسلام بھی کہتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے، ہمیں خوف کھانے کی ضرورت نہیں، یعنی اسلام میں بھی عدم تشدد اور بےخوف زندگی گزارنے کا پیغام ملتا ہے۔ اِس طرح حزب اختلاف قائد نے برسراقتدار جماعت کی گھیرابندی اِس طورپر کردی ہے کہ اگرچہ وہ اطمینان بخش جوابات نہیں دے پائے لیکن اِس سلسلے میں کوشش ضرور کرےگی کہ کسی طرح حزب اختلاف کو پست کیا جائےاور بالآخرایسا ہی ہوا کہ ہزار فرار کے باوجود وزیراعظم نے منی پور سانحہ پر اپنی زبان کھولی اور اِس سلسلے میںحزب مخالف کو مطمئن کرنا چاہا لیکن ناکام رہے کیوں کہ اِس سوال پر لاجواب نظر آئےکہ جب وزیراعظم نے منی پور سانحہ کے لیے خاطر خواہ اقدام کیے ہیں تو اب تک منی پور کا دورہ کیوں نہیں کرسکے؟ اور یوں وزیراعظم کا خطاب’’منی پور کو اِنصاف دو‘‘جیسے نعروں میں دب کر رہ گیا اور اِس موقع پریہ نظارہ بخوبی دیکھنے کو ملا کہ وزیراعظم اور لوک سبھا اسپیکر حزب مخالف کے سامنے لاچار وبےبس نظر آئے۔ یہ منظر اشارہ ہے اِس بات کا کہ اِس بارایوان سیاست میں حزب اختلاف کو نظر انداز کرنا برسراقتدار جماعت کے لیے آسان نہیں ہوگا بلکہ ہرہرقدم پر اُسے حزب اختلاف کی پُرزور مخالفت کا سامنا کرنا پڑےگا۔ لیکن اِسی کے ساتھ حزب اختلاف کے قائد کو بھی اپنے رویے میں کچھ تبدیلی اور معقول سنجیدگی لانی پڑے گی اور محض لڑنے بھڑنے جیسے تیور سے توبہ کرنا ہوگا، تا کہ برسراقتدارجماعت، اُن کی باتوں کو مذاق میں نہ اُڑاسکے جیساکہ حالیہ دنوں میں دیکھا گیا کہ مسٹر راہل گاندھی کے ذریعے کھڑے کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مسٹروزیراعظم نے خود اِحتسابی کرنےاوراِطمینان بخش و خاطر خواہ جواب دینے کےبجائے، حزب اختلاف قائد پر طنز وتعریـض کےساتھ ہمیشہ کی طرح اُن کا مذاق بنانے سے بھی کچھ دریغ نہیں کیا، حالاں کہ مسٹر وزیراعظم کا یہ انداز، نہ صرف ایوان سیاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ خود مسٹروزیراعظم کی شخصیت و عظمت کو بھی داغدار کرتا ہے۔ جب کہ ایسے موقع پر ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ مسٹر وزیراعظم اپنی وزارت عظمیٰ کے وقاروتمکنت کا خیال اُسی طرح رکھتے جیساکہ آنجہانی پنڈت جواہر نہرو نے رکھا تھا جب حزب اختلاف قائد آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے پارلیمنٹ کے اندر بڑے جارحانہ انداز میں اُن کی سخت مخالفت اور تنقید کی تھی۔ چناں چہ اپنے اِس واقعے کا بیان آنجہانی اٹل بہاری واجپئی بذات خود یوں کرتےہیں کہ ’’ گانکریس کے محبین شاید بھروسہ نہیں کریں گے۔ ساؤتھ بلاک میں نہرو جی کی تصویر لگی رہتی تھی۔ میں آتے جاتے دیکھتا تھا۔نہرو جی کے ساتھ پارلیمنٹ میں نونک-جھونک بھی ہوا کرتی تھی۔ میں نیا تھا پیچھے بیٹھتا تھا۔ کبھی کبھی بولنے کے لیے تو مجھے واک آؤٹ کرنا پڑا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے میں نے جگہ بنائی اور میں آگے بڑھا۔ پھر جب میں وزیرخارجہ بن گیا توایک دن دیکھا کہ گلیارے میں ٹنگا ہوا نہرو جی کا فوٹو غائب ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تصویر کہاں گئی؟ کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ تصویر وہاں پھر سے لگادی گئی۔ کیا اِس جذبات کی قدرہے؟ کیا یہ جذبات پھرسے اِس ملک میں پیدا ہوئے؟ ایسا نہیں ہے کہ نہرو جی سے اختلافات نہیں تھے اور یہ اختلافات گفتگو میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ اُبھر کر سامنے آتے تھے۔ میں نے ایک بار نہرو جی سے کہہ دیا تھا کہ آپ ملی جلی شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کے مزاج میں چلبلاپن بھی ہے اورباوقار سنجیدگی بھی۔ نہرو جی ناراض نہیں ہوئے۔ شام کے وقت کسی موقع سے ملاقات ہوگئی، تو اُنھوں نے کہا کہ آج تو بڑا زوردار خطاب کیا اور مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ آج کل ایسی تنقید کہاں؟ ایسی تنقید کرنا دشمنی کو دَعوت دینا ہے۔ ‘‘ لہٰذا موجودہ صورت حال کے پیش نظربرسراقتداراورحزب اختلاف دونوں جماعتوں کو ہندوستانی پارلیمنٹ کی اِس تاریخ کو زندہ رکھنا چاہیے اور ایوان کے اندر اَپنے اوپر ہرطرح کی تنقید کو برداشت کرنا چاہیے اور کسی بھی تنقید کا جواب تنقید سے دینے بجائے اُس کی گہرائی و گیرائی میں جانا چاہیے اوراُس کے تناظر میں خوداِحتسابی کرتے ہوئے انتہائی پُروقار طریقے سے اچھائیوں کو اپنانا چاہیے اور بُرائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے