• منگل. اگست 19th, 2025

تمہیں کہوکہ یہ انداز ِگفتگو کیا ہے؟

Byhindustannewz.in

مئی 24, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن


یوں توآزادی کے بعد سے ہی اکثریت کا ایک طبقہ مسلمانوں کے خلاف نفرتی اقدام کرنےکو بہرحال جائز ٹھہراتا آرہا ہے اور اِس سلسلے میں منظم کوششیں بھی کرتا آرہا ہے۔ لیکن پچھلےایک عشرے سے اِس میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ خواہ سیاست کا میدان ہویا معاشرت کا، جہاں بھی دیکھا جائے نفرت نے اپنا وجود مستحکم ومضبوط کرلیا ہے۔ بالخصوص بہرنوع اِنتخاب کے پیش نظر، یہ نفرتیں مزید اپنے شباب پر پہنچ جاتی ہیں اورزعفرانی خیالات کےہرچھوٹے بڑے لیڈران مذہبی وقومی منافرت جیسی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ 2024ءکے تناظر میں بات کی جائے تو اِس کا آغاز ’’رام مندرپران پرتشٹھا‘‘ سےکیا گیا۔ اِسی سلسلے کی ایک کڑی گیان واپی مسجد کو نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ سیاسی مفاد کی خاطر دستورِہند کوبھی طاق پر رکھنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ اِس کے ساتھ ہی اقلیتوں اور اُن کے مذہبی و سیاسی قائدین کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی اور اُن کوخوف وہراس میں مبتلا کرکے اُنھیں دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس کرایا گیا۔ اِس کے پیش نظرمسلم قائدین کی جانیں تک بھی لی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم قائدین کی جانیں لینا اور اُنھیں تلف کرنا خود زَعفرانی خیالات کے حامل افراد ہی کے لیے جی کا جنجال بن گیا۔ کیوں کہ اِس غیراِنسانی اور اِنتقامانہ کارروائی کی نہ صرف اقلیت نے بلکہ اکثریت کے بیشتر طبقات نے بھی شدید مذمت کی اور ملکی اُخوت ومروت اور باہمی آہنگی کے لیے اَیسی کسی بھی کارروائی کو خطرناک قرار دیا۔ اِسی کو دیکھتے ہوئے زعفرانی لیڈران کے کچھ ہوش ٹھکانے لگے اور اُنھوں نے اپنے رویےسے اقلیت کو رِجھانے میں لگ گئے۔ لیکن خیال رہے کہ زعفرانی جماعتیں محض اقلیت کے حق میں مضرت رساں نہیں ہیں بلکہ اِن جماعتوں سے ہروہ طبقہ نالاں اورنا اُمید ومایوس ہوگیا ہے جوکھانے-کمانے اور ایک پُرسکون زندگی بسر کرنے میں یقین رکھتا ہےاور اِس کا اثر مکمل طورسے 2024ء کے مرحلہ وار اِنتخاب میں دیکھنے کو بخوبی مل رہا ہےکہ کیا مسلم اور کیا غیرمسلم، کیا پسماندہ اور کیا غیرپسماندہ سبھوں نے زعفرانی جماعت کے خلاف اپنی ناراضی درج کرائی ہے۔ چناں چہ 2024ء کا پہلا انتخابی مرحلہ تک توسب کچھ درست رہا کہ انتخابی جلسوں سے متعلق کافی کچھ اچھا پڑھنے اور سننے کو ملا۔ لیکن جیسےہی ابتدائی مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچااورزَعفرانی جماعتوں کو اُن کےقدموں تلے کی زمین کھسکتی نظرآئی، توپھر کیا تھا ہمیشہ کی طرح مذہبی وملی منافرت کی جھڑی لگ گئی۔ اِس کا افسوس ناک پہلو یہ ہےکہ اِس کا آغازبذات خود مسٹروزیر اعظم نے کیا۔ یہ وہی وزیراعظم ہیں جویہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ’’ہم کبھی ہندو-مسلمان نہیں کرتے اور جس دن ہم ہندو-مسلمان کرنے لگیں گے اُسی دن ہم سیاست ترک کردیں گے وغیرہ۔‘‘ لیکن اِس کے برخلاف راجستھان کے علاقے بانسواڑہ کے انتخابی جلسے سے جو اُنھوں نےنفرتی انداز اختیارکیا اور جس فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دی وہ راجستھان تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ ملک کی متعدد رِیاستوں میں بھی پہنچ گئی۔ مسٹروزیراعظم نے راجستھان، یوپی، بہار وغیرہ مختلف صوبوں میں یہ نفرت انگیزیاں کیں کہ’’اگر کانگریس اقتدار میں آ گئی تو ملک کی تمام جائیداد اُن کے درمیان تقسیم کر دے گی جن (مسلمانوں) کے زیادہ بچے ہیں۔ ہماری غریب ماؤں اور بہنوں کے منگل سوتربھی بیچ دےگی اور ہماری عورتوں کی جمع پونجی چھین کر دَراندازوں (مسلمانوں) کے سپرد کردےگی۔‘‘ کچھ اِسی طرح کا نفرتی لب ولہجہ مسٹر وزیراعظم نے علی گڑھ کے ایک انتخابی جلسے میں بھی اپنایا اور لوگوں کو فرقہ واریت پر اُکسایا۔ علاوہ ازیں مختلف انتخابی جلسوں میں ببانگ دہل یہ بھی کہتے نظرآئے کہ’’انڈیا اتحاد اوبی سی کا ریزرویشن مسلمانوں کو دِے دےگا۔ رام مندر پر بلڈوزر چلادےگا، سی اے اے کو منسوخ کردےگا اورایک بار پھرسے آرٹیکل370؍ بھی نافذکردےگا۔‘‘ مظفرپور-سارن کے خطاب میں اُنھوں نے یہاں کہہ دیا کہ’’ کچھ لوگوں کو نیند میں ہی پاکستان کا ایٹم بم دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنیں، تو میں اُن کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ چوڑیاں نہیں پہنی تواُنھیں پہنا دیا جائےگا۔‘‘ اِس پر مستزاد یہ کہ جیسے جیسے 2024ء کا انتخاب مرحلہ وار آگے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے زعفرانی لیڈران کی زبانیں نفرتی زہرسے آلودہ ہوتی جارہی ہیں۔ چناں چہ جس وزیر داخلہ نے دہلی اسمبلی انتخاب کے موقع پر وزیرآباد، دہلی میں کبھی یہ کہا تھا کہ ’’اِس بار اِس زور سے بٹن دبانا ہے کہ اُس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچ جائے۔‘‘ لہٰذا حسب سابق اِس باربھی 2024ء کے انتخابی تشہیری جلسے میں بڑے زور-شور سے وہ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ’’ اگرتلنگانہ میں ہماری جماعت کو دَس سیٹیں ملیں تو مسلم ریزرویشن منسوخ کردیا جائےگا۔‘‘ نفرتی تشہیربازی کے گُرو مسٹر یوگی بھی اِس معاملے میں کسی سے پیچھے کیوں کر رَہ سکتے ہیں، چناں چہ وہ لکھنومیں21؍مئی کو اَپنے ایک بیان میں یہ کہتے نظرآئے کہ ’’اب کوئی یوپی کے سڑکوں پر نماز پڑھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مساجد نے اپنے مائک ہٹا لیےہیں۔ آئندہ 5؍ برسوں میں لوگ مساجد کی اذانوں کو بھی بھول جائیں گے۔‘‘ یوں ہی شبھاس بھامرے کی حمایت میں مالیگاؤں کے باشندوں سے مسٹر یوگی نے کہا کہ’’کانگریس کے اندر اَورنگزیب کی روح حلول کرگئی ہے۔‘‘ اِدھر زعفرانی صدرجے پی نڈا نےاپنی ہم جماعت لیڈروں کی زہرافشانیوں کو چھپانے کی حتی الامکان کوشش کی اور نیوز اِینکرز کے ذریعے مسٹریوگی کے نفرتی بیان سے متعلق کیے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ’’کاشی متھرا میں مندروں کی تعمیر کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ حالاں کہ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ گیان واپی مسجد میں پوجا-پاٹ کے خلاف دی گئی عرضی کو عدالت نے خارج کردیا ہے اور اُس پر کسی بھی طرح کی شنوائی سے صاف صاف منع کردیا ہے۔ لیکن اگر واقعی ایساہی ہے جیسا کہ مسٹر نڈا نے کہا ہے، تو پھر وہ ازخود پوجا-پاٹ بند کیوں نہیں کرادیتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ مہاراشٹر کے ایک زعفرانی اُمیدواررَاہل شیوالے نے بھی کچھ اِ س طرح کی باتیں کہی ہیں کہ ’’ہم سبھی کو ساتھ لے کر چلیں گے یہ ہماراوعدہ ہے، آئین تبدیل کرنے کی افواہ بے بنیاد ہے۔ ‘‘ نیزخود کو آئین ہند کا محافظ کہا اور اَقلیتوں سے متعلق اپنی متعدد خدمات بھی گنوائیں۔ اگر مسٹرشیوالے حقیقتاً اقلیت کے بہی خواہ ہیں تو اَبھی چند دنوں پہلے رام نومی کے موقع پرممبرا واطراف میں جو فسادات ہوئے اور اَقلیت کے جوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تو اُس وقت وہ کہاں تھے اور کیا اُس معاملےمیں اُنھوں نے کچھ کردار ادا کیا تھا اورکیا اُن زعفرانی لیڈران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو نفرتی محاذ کھولے بیٹھے تھے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس طرح کےمخرب اور نفرتی بیانات پر شکنجہ کیسے کسا جائے اور کون کسے؟ جب کہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزرائے اعلی جیسے مناصب پر فائز افراد ہی نفرت انگیزی اور شرانگیزی کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور حصول اقتدار کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے سے کچھ دریغ نہیں کررہے ہیں۔ حالاں کہ مسٹر وزیراعظم نے دس سال تک مسلسل ملک پر کامل حمایت کے ساتھ حکمرانی کی ہےاور جب جس وقت جیسا چاہا فیصلہ لیا ہے، یہاں تک کہ قانون میں ترمیم وتبدل بھی کیا ہے، توہونا تو یہ چاہیے کہ اِس بار 2024ء کے انتخاب میں وہ بلاتعصب وتفریق ہر ہندوستانی کے بنیادی مسائل اور تمام ریاستوں کو دَرپیش مسائل پر غور وفکر کرتے اوراُنھیں حل کرنے پرزُوردیتے، لیکن اِس کے برخلاف ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی وہ اور اُن کے سیاسی حواری، مذہبی وملی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ مندر-مسجد اورہندو-مسلم کے نام پر پولرائزیشن کی سیاست کررہے ہیں۔ اگردَس سال اقتدار میں بنے رہنے کے بعد بھی نفرتی بیانات اورہندو-مسلم کا سہارالیا جارہا ہے اور وہی اِلزامات درالزامات کا دور دورہ ہے، تو اِس کا واضح مطلب ہے کہ مسٹر وزیراعظم خود اِس بات کو تسلیم کررَہے ہیں کہ دس سال حکومت کرنے کے بعد بھی اُن کے پاس ترقیات وحصولیابیات کے نام پراَیسا کچھ نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی عوام کو اَپنے حق میں سازگار کرنے کی ہمت جٹا سکیں۔ ورنہ کیا وجہ ہےکہ جوکبھی بڑے کروفر کے ساتھ یہ کہتے نظرآتے تھے کہ ’’ہم ہندو-مسلم کے نام پر کبھی سیاست نہیں کریں گے‘‘ وہ آج ہندو-مسلم کے سہارے مزید اِقتدار میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔ کیا اُنھیں ’’اب کی بار ۴۰۰؍ پار پر اِعتماد نہیں ہے؟‘‘ کیا اُن کی اپنی ہی گارٹنی عدم اعتبار کا شکار ہوچکی ہے؟‘‘
خیر! مسٹر وزیراعظم کواَپنے دس سالہ حکومت کی کارگزاریوں کی بنیاد پرہی اپنی عوام کے سامنے جانا چاہیے اور ڈَنکے کی چوٹ پر اپنی خدمات گنواتےہوئے اُن سے اپنے حق میں ووٹ مانگنا چاہیے کہ ہم نے پچھلے دس سال میں یہ یہ حصولیابیاں اوریہ یہ ترقیاں حاصل کی ہیں اِس لیے ہمیں مزید موقع دیا جائے تاکہ مزید بہتری کے ساتھ ہم آپ سب کے کام آسکیں۔ لیکن ایسا کچھ نظارہ دیکھنے میں نہیں آرہا ہے، تواِس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ مسٹر وزیراعظم نے الزامات واتہامات اور ہندو-مسلم کرکے نہ صرف اپنی ساکھ اور وقار کو مجروح کیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے اعلی ترین عہدے کوبھی دَاغدار کیا ہے۔ ایسے میں غالب کا یہ شعر زبان پر آئے بغیر نہیں رہتاکہ
ہرایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تمہیں کہوکہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے