ڈاکٹر جہاں گیر حسن
رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے اور مسلم برادران دل و جان سے ماہِ رمضان کی مکمل پابندی کر رہے ہیں اور اپنے خالق و مالک کو رَاضی کرنے کے لیے اچھے سے اچھے اور بہتر سے بہتر اعمال انجام دے ہیں۔ اِسی کے ساتھ آپسی ہم آہنگی اور اُخوت و مروت کے مناظر بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ حالاں کہ گزشتہ ایک دہائی سے انتہائی منظم طرز پر نفرتی گروہوں نے آپسی منافرت اور تعصب و عنادکا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہمہ گیر انداز میں ملکی و سماجی سطح پر ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ آئے دن کبھی مذہبی تہواروں کے نام پر اور عام مذہی سبھاؤں کے نام پر جس طرح سے آپسی خانہ جنگی کا ماحول بنایا جارہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے نہ ملک کے حق میں مفید ہے اور نہ باشندگان ملک کے حق میں۔ اس کے باعث محض ملک و بیرون ملک کی سطح پر ہی جگ ہنسائی نہیں ہو رہی ہے بلکہ ملکی وقار کا گراف بھی دن بہ دن گرتا ہی جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے تو اِس کا ایک ہی جواب ہے کہ نہ تو سیاسی رہنماوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کی فکر ہے نہ ہی میڈیا ئی جماعتوں کو اس سے کوئی سروکار۔ اِس لیے کہ سیاسی رہنمایان اپنی تجوری بھرنے اور دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں تو میڈیائی جماعتیں اپنی ٹی آر پی بڑھانے اور حکمران طبقہ کی خوشامد میں مگن ہیں، اور عوام الناس اِن دوپاٹوں کے بیچ پستی چلی جا رہی ہیں۔ نہ اُنھیں روزگار دیا جارہا ہے۔ نہ اُنھیں تجارتی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ نہ اُنھیں تعلیم و تعلم کے میدان خاطر خواہ مدد فراہم کی جارہی ہے۔ نہ اُنھیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نجات دی جارہی ہے اور نہ ہی اُن کے سلسلے میں خیرسگالی کے جذبات رکھے جارہے ہیں۔ اس کے برخلاف ساری توانائی اپوزیشن کو سبق سکھانے پر خرچ کی جارہی ہے اور پچھلے ستر برسوں کی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے بس۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف کم اور ایک دوسرے کی سوتن زیادہ ہیں۔ نیز شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جو باشندگان ہند کے درمیان منافرت اور فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے استعمال نہ ہو رہا ہو، اور اِس کے ساتھ تمام تر اخلاقی حدیں پار کردی جارہی ہیں۔ یہاں تک ایوان بالا اور ایوان زیریں میں سے کوئی بھی ایوان بد کلاموں اور فحش گویوں سے محفوظ نہیں ہے۔ جس ایوان کی آن بان شان قائم رکھنے کے لیے کل کے ہمارے سیاسی خود دار قائدین اپنی کرسی تک قربان کر دینے سے دریغ نہیں کرتے تھے آج اسی ایوان کی آن بان شان کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں اور ایوانوں کے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتا۔ بلکہ حیرت در حیرت تو اُس وقت ہوتی ہے جب تالیاں بجا کر اَیسےغیرمذہب اور اوچھے سیاست بازوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ صاحبان ایوان، اپوزیشن کے سخت سے سخت تیر و نشتر کو بھی ہنستے ہنستے برداشت کرلیتے تھے اور اپوزیشن کی اُن سخت ترین تنقید سے گھبرانے کی بجائے اُس کی روشنی میں اپنی اصلاح کا سامان تلاش لیا کرتے تھے لیکن آج اپوزیشن کی معمولی سے معمولی تنقید کو بھی صاحبان ایوان اپنی ہتک عزت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اُس کی روشنی میں خود اِحتسابی کی بجائے اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلنے میں ایڈمنسٹریشن تک کا غلط استعمال کر بیٹھتے ہیں۔ پہلے کے صاحبان ایوان اچھی اور مضبوط حکومت کے لیے مضبوط اور دمدار اَپوزیشن کو لازم سمجھتے تھے لیکن آج معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہوگیا ہے۔ گویا حکومت کی اصلاح کرنا خود کو قید و بند کے حوالے کرنا ہے۔ لہٰذا حکومت کو اَیسا رویہ اختیار کرنے کی جگہ اُسے کشادہ دل ہونا چاہیے اور اُسے اپنے منفی رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ کیوں کہ ایک پائیدار حکومت وہی ہوتی ہے جو ہر ایک باشندے کے حق میں مفید ہو، خواہ دشمن ہو یا دوست۔ لہٰذا منافرت کی جگہ آپسی ومشترکہ اتحاد واتفاق اور اُخوت و مروت کو فروغ دینا چاہیے اور بہرصورت ہر طرح کی جانبدار ی سے دور ہوکر غیرجانبدار ی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ ہندوستان کی مٹی میں ناقابل تسخیر حد تک گنگا۔جمنی مشترکہ تہذیب اور اقلیت و اکثریت کی جڑیں پیوست ہیں، جس کی مثالیں کسی نہ کسی سطح پر دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔
حالیہ دو مثالیں اِس پر واضح دلیل ہیں کہ بقول سید انیس احمد ندوی: برادر عزیز مولوی صہیب حسینی سلمہ اپنے دوست کے ساتھ دہلی سے بذریعہ کار واپس آ رہے تھے۔ افطار کے وقت ایکسپریس وے کے ایک ڈھابے پر گاڑی روکی۔ ڈھابے کا نام ایسا تھا جس کو پڑھ کر یہ سمجھا جاتا کہ کسی بہت ہی متشدد غیر مسلم کا ڈھابہ ہے۔ جیسے ہی یہ لوگ گاڑی سے اُترے، فوراً ڈھابے والے نے آگے بڑھ کر دونوں کا استقبال کیا اور لے جا کر میز پر بٹھایا۔ ان لوگوں نے کچھ آرڈر کرنا چاہا تو اُنھوں نے اشارے سے منع کر دیا اور افطار کے لیے پھل فروٹ لا کر میز پر رکھ دیں۔ ان لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ کوئی افطار اِسپیشل ڈش ہے، تو الگ سے بھی مزید تین چار چیزوں کا آرڈر دے دیا، وہ سب چیزیں بھی فوراً لا کر دے دی گئیں۔ افطار کا وقت ہوا، ان لوگوں نے اطمینان سے افطار کیا۔ افطار کے بعد جب یہ لوگ Bill دینے کے لیے گئے تو ڈھابے والے نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ بھائی جان! یہ افطار کا وقت ہے۔ ہم اس وقت کسی سے بھی پیسے نہیں لیتے۔ افطار کے وقت میں چاہے جو آئے ہم اُس کو اَپنی طرف سے کھلاتے ہیں اور یہ ہمارا سوبھاگیہ (سعادت) ہے۔ اصرار کر کے کہا گیا کہ جو چیزیں ہم نے آرڈر سے منگوائی ہیں کم سے کم اُن کے تو پیسے لے لو، مگر اُس نے ایک روپیہ بھی نہ لیا۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے خود ہی کہا کہ آپ لوگوں کو نماز بھی تو پڑھنی ہوگی، یہ کہہ کر اَپنے ساتھ اندر ایک کمرے میں لے گیا جہاں جانماز اور صف کا انتظام تھا۔ ان لوگوں نے اطمینان سے نماز پڑھی۔ پھر ڈھابے والے کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم کو یقین ہے کہ جب تک آپ جیسے لوگ موجود ہیں، ہمارے ملک میں محبتیں باقی رہیں گی، کاش کہ سب لوگ آپ ہی کی طرح ہو جائیں۔
اِسی طرح سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے کہ ایک مسجد اور مسلم دُکانوں کے سامنے بہت سارے غیر مسلم برادران ٹھیلی لگائے روزے کا سامان وغیرہ فروخت کررہے ہیں۔ ان لوگوں سے دریافت کیا جارہا ہے کہ کیا مسجد اور مسلم دُکانوں کے سامنے اس طرح ٹھیلی لگانے اور سامان فروخت کرنے سے کوئی مسلم منع نہیں کرتا ہے؟ اس پر غیر مسلم ٹھیلی لگانے والوں کی طرف جواب ملتا ہے کہ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ اور یہ ایک بار کی بات نہیں ہے بلکہ مذکورہ غیر مسلم برادران پچھلے دو تین سال سے مسلسل اِسی طرح ٹھیلی لگاتے آرہے ہیں اور اَپنا سامان بیچ رہے ہیں اور اُنھیں کسی مسلم کی طرف سے کوئی دقت نہیں پہنچائی جاتی ہے اور نہ ہی اُنھیں منع کیا جاتا ہے اور یوں محبت و الفت کی دُکانیں سجتی رہتی ہیں۔
القصہ! ایسے عالم میں جب کہ نفرتی جماعتیں منافرت کے سہارے اپنے دائرہ کار کو وسیع کر رہی ہیں اور اُخوت و مروت اور آپسی محبت و الفت کے ماحول کو بگاڑنے کے درپے ہیں ہم عوام الناس کو مذکورہ دونوں اعمال کے طرز پر اَپنے اعمال کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور نفرت کے بر خلاف اِسی طرح محبت و اُلفت کی دُکانیں سجائے رکھنےکی ضرورت ہے۔ اگر ہم عوام الناس ملک گیر پیمانے پر اَیسا کر لے جاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ ایک نہ ایک یہ نفرتی جماعتیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔
