• منگل. اگست 19th, 2025

کرب ناتمام

Byhindustannewz.in

مارچ 5, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

نام کتاب : کرب ناتمام
افسانہ نگار:شاہین نظر

صفحات:104، قیمت:120، سال اشاعت: 2022ء
ناشر:ہدایت بپلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس،شاہین باغ، نئی دہلی
مبصر:ڈاکٹرجہاں گیر حسن، شاہ صفی اکیڈمی، سید سراواں، کوشامبی(یوپی)


گیا، بہار جوقیام اول سے ہی قدیم وجدیدعلوم وفنون کا ایک عظیم گہوارہ رہا ہے اور اپنی علمی و ثقافتی زرخیز ی کے باعث بین الاقوامی سطح پر متعارف ومشہوربھی رہا ہے، شاہین نظر کا تعلق اُسی قدیم وجدید تاریخی وعلمی شہر سے ہے۔آپ کا ذریعہ معاش صحافت رہا ہےاور باوجودیکہ آپ، انتہائی مجرب اوربالغ نظرصحافی کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی آپ ایک حساس اور دردمند دل کے مالک بھی ہیں ، چناں چہ آپ کی یہی حساسیت اور دردمندی؛جب آپ کےتخیلات وتفکرات سے معانقہ کرتی ہے تو ’’آب بیتی‘‘ اور ’’جگ بیتی‘‘ قصوں اور کہانیوں کے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ شاہین نظر خود بیان کرتے ہیں:


’’میں پیشے کے اعتبار سے صحافی ہوں اور غیرجانبدارانہ طریقے سے کسی واقعے، حادثے یا حقیقت کو نیوز اِسٹوری کی طرح پیش کرنا میرا کارِ منصبی ہے، لیکن ہر حساس دل انسان کی طرح واقعات اور مشاہدات مجھے بھی متأثر کرتے ہیں اور میرے وجود کا حصہ بن کر مجھے بےچین رکھتے ہیں۔ اور پھر خود بخود دیرسویر نوک قلم تک افسانوں کی شکل میں آہی جاتے ہیں۔‘‘ (پیش لفظ)


شاہین نظر چوں کہ ایک صحافی رہ چکے ہیں اور صحافت کےسلسلے میں اندرون ملک و بیرون ملک کا اچھا خاصا تجربہ رکھتے ہیں، اِس لحاظ سے دیکھاجائے توآپ کےافسانے آپ کے ذاتی مشاہدات و تجربات کے بہترین عکاس اورحقیقی آئینہ دار معلوم ہوتے ہیں۔حالاں کہ ہمارے علم کے مطابق اب تک آپ کے دوہی افسانوی مجموعے(’’سرکٹے لوگ‘‘ اور’’کرب ناتمام‘‘) منظر عام آئے ہیں لیکن اِس کے باوجود آپ دنیائے افسانہ میں اپنی ایک محسوس چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہیں اور ایک حد تک سنجیدہ ناقدین کو خامہ فرسائی پرمجبور بھی کرتے ہیں۔


زیرنظر افسانوی مجموعہ ’’کرب ناتمام‘‘ پندرہ افسانوں ، ’’پیش لفظ‘‘ اور’’ حرف معتبر‘‘جیسی نگارشات پر مشتمل ہے۔اِس میں شامل تمام ترافسانےتجربات سے لبریز، مشاہدات سے مملو اور اِنتہائی سبق آموزہیں۔ یہ صرف کہانی کار کے محسوسات نہیں بلکہ عام انسانوں کے دل کے خطرات معلوم ومحسوس ہوتے ہیں۔اگرغایت نظر سے دیکھا جائے تو اِس مجموعے کی کہانیوں میں ’’کربناکی اور محرومی ‘‘ ایسی چیزیں ہیں جو تقریباً ہرکہانی میں کمال کی حد تک مشترک ہیں۔بایں سبب ہرکہانی اپنےقاری کے دل پر اپنا کربیہ اثرضرور چھوڑتی ہےاور اگرچہ وہ ایک لمحےہی کے لیےکیوں نہ ہو۔


’’پیش لفظ‘‘ میں بطور اختصار ذاتی معلومات فراہم کی گئی ہے کہ شاہین نظربہار کے ایک مشہور شہرگیا سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافتی سلسلے میں گیا ، پٹنہ، دہلی ،خلیجی ممالک جیسے مقامات پر رہ چکے ہیں اور وہاں کےحالات سے بخوبی دوچار ہیں اورچوں کہ بحیثیت صحافی خبروں کو کہانی کی صورت میں پیش کرنا آپ کا محبوب ومشغلہ رہا ہے تو اِسی ذوق وشوق نے آپ کو افسانہ نگاری کی طرف مائل کیااوریہ کہ آپ کےافسانوں کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور اِس قدر مقبول ہوئے کہ کچھ افسانے انگریزی اور کچھ ملیالم زبان میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔اِن تمام صلاحیتیوں اور خوبیوں کے باوجود آپ کے اندر تعلّی وتفاخر کا شائبہ تک نہیں۔بلکہ ’’صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کےلیے‘‘ کے تحت اپنی کاوشات ونگارشات سے متعلق اصل فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑدتے ہیں کہ بحیثیت کہانی کار وہ کہاں تک کامیاب ہیں ۔


اِس مجموعے میں شامل افسانوں کے مطالعےسے واضح ہوتا ہےکہ اِس میں بعض افسانوں کی زمین ہندوستان سے متعلق ہیں اور بعض افسانوں کی زمین خلیجی مالک سے وابستہ ہے۔ مثال کے طورپر ’’جنت باجی‘‘، ’’کرب ناتمام‘‘، ’’باردو‘‘ ، ’’گھر‘‘، ’’قیدی‘‘، ’’یااللہ‘‘، ’’بلا‘‘، اٹکی ہوئی سانس‘‘ وغیرہ افسانے ہندوستانی حالات کے عکاس ہیں اور ’’تعاقب‘‘، ’’کرب شناسائی‘‘، ’’پانی پانی‘‘، متاع رائیگاں‘‘، ’’نامراد‘‘، ’’سرکٹے لوگ‘‘ بیرون ہند اور خلیجی ممالک میں رہ رہے مزدوروں اورملازموں کے شب وروز کے ترجمان ہیں۔
شاہین نظر بالخصوص انسانی معاشرے کے اُن افراد کی ترجمانی کرتے ہیں جو فطری طورپر وفادار، محنتی اورمخلص ہوتےہیں اور اپنی طاقت وقوت سے زیادہ کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی عزت وناموس کو بھی داؤ لگانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ صرف اور صرف اِس لیے کہ کسی کو گھر چلانا ہے، کسی کو بچے-بچیوں کا مستقبل سنوارنا ہے، لیکن اجرو معاوضےکے نام پر اُنھیں ملتا کیا ہے ؟ درد، کرب، ظالمانہ وآمرانہ سلوک، محرومی، نامرادی،غلامی اور محض سرکٹے لوگ جیسی صورت حال سے شناسائی۔شاہین نظر کے یہ وہ امتیازات ہیں جس کے باعث ایک عام کہانی کار کی صفوں سے نکلتے ہیں اور ایک خاص کہانی کار کی صفوںمیں اپنی جگہ بنالیتےہیں۔


’’جنت باجی‘‘ایک خوددار بیوہ خاتون کی داستان حیات ہے اورہمدردی کے لباس میں روپوش حریص و مطلبی کی روداد۔ ’’کرب ناتمام‘‘ یہ ایک حوصلہ مند اور بہادر خاتون کا قصہ ہےجوںبیوگی کے بعد بھی شوہر کی موت کا کرب اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتی ۔ افسانہ’’گھر‘‘ ایک انسان کی کہانی ہےکہ تمام تر اخلاص و وفاداری کے بعد بھی اُسے نامرادی ہی ہاتھ آتی ہے ۔’’وہ‘‘ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔یہ کہانی خودکلامی والی کیفیت سے دوچار کرتی ہے۔افسانہ’’بلّا‘‘ اتحاد و اتفاق کے فوائداور اختلاف وانتشار کے مضرات سے ہم آغوش کرتا ہے۔ ’’قیدی ‘‘ افسانوی جامےمیں احوال واقعی کا چشم دید رَاوی ہے۔ ’’ یااللہ‘‘سیاست کی پھینٹ چڑھتی اقلیت کا قصہ ہے۔’’بارود‘‘ فسادکی چپیٹ میں پھنسی اور سسکتی انسانیت کی روداد ہے۔’’تعاقب‘‘ اولاد کی محبت میں تڑپتے ایک مجبور وبےبس باپ کی دلی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ جب کہ ’’کرب شناسائی‘‘ قربت وشناسائی کی کیفیت میں ہجروفراق کا دردوکرب دیتا ہے۔


علاوہ اَزیں’’اٹکی ہوئی لاش‘‘ کا آغازیہ ہی کہانی کا محور بیاں کردیتا ہےکہ اس کے باعث انسانی قلب میں صرف ٹیس پیدا نہیں ہوتی بلکہ اُس کے شدت کرب سے انسان مضطرب ہو اُٹھتا ہے۔’’ابے کم بخت، تو جب روزی کمانے نکلا تھا تو تونے اپنی غیرت اپنے وطن ہی میں بیچ ڈالی تھی؟‘‘ اس جملے سے ’’نامراد‘‘ کہانی کا آغاز ہوتا ہےاورایک انتہائی بےحس وبےغیرت انسان کی داستان کرب بیان کرتاہے جس کے پاس غصہ، نفرت اور انتقام کا مادّہ تو ہے ہی نہیں۔ ’’متاع رائیگاں‘‘ ایک ایسے انسان کا قصہ ہے جو جان سے ہاتھ تو بیٹھتا ہے لیکن اُس کی ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتیں۔ یہ اُن افراد کے لیے ایک رہنما سبق ہے جو اپنےگھربار سے دور ایک خواب سجائے بیرون ملک جاتے ہیں لیکن اُن کے خواب کبھی پورے تو نہیں البتہ! وہ خود ایک خواب بن جاتا ہے۔ ’’پانی پانی‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک محاورہ ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے:’’پانی پانی ہونا‘‘۔ یعنی احساس گناہ کے باعث انسان کا انتہائی شرمندہ ہونا، تو اِس کہانی میں یہ تجربہ بالخصوص محسوس ہوتا ہے۔ اِس مجموعے کا آخری افسانہ ’’سرکٹے لوگ‘‘ ہے۔یہ ایسے لوگوں کی کہانی ہے جنھیں کچھ سوچنا سمجھنا آتا ہی نہیں۔ اِنھیں ایک ہی بات معلوم ہےکہ تابعداری اور بس تابعداری ، گویایہ لوگ محض کام -کاج کے لیےبنے ہوتے ہیں۔ویسے تو ’’اٹکی ہوئی لاش‘‘، ’’نامراد‘‘، ’’پانی پانی‘‘، ’’متاع رائیگاں‘‘وغیرہ سبھی افسانے لازوال ہیں اور قابل مطالعہ ہیں۔ لیکن ’’سرکٹے لوگ‘‘ بالخصوص نمائندہ اور لائق مطالعہ افسانہ ہے۔


القصہ! شاہین نظر نے صحافت نگاری کی مدد سے اپنے افسانوں میں خاطر خواہ جان ڈالنے کی کوشش کی ہے اور مکمل طورپر نہ سہی کافی حد تک کامیاب معلوم پڑتے ہیں۔ زبان وبیان بھی شگفتہ اور دلکش ہے ۔البتہ!کہیں کہیں رسم الخط اورپروف کی غلطیاں بھی درآئی ہیں ۔شاہین نظر کے یہاں ایک چیز ہمیں شدت سے کھٹکتی ہے کہ وہ یاسیت اور شدیدردوکرب کے قید بامشقت میں گرفتار محسوس ہوتے ہیں اور رُومانویت سے یکسرخالی نظرآتےہیں ۔ دوسری بات یہ کہ بیرون ملک سے متعلق افسانے محض کربیہ ہیں ،جب کہ ہمارے خیال سے کچھ طربیہ بھی ہوتے تو اچھا ہوتا۔ہم پُراُمید ہیں کہ وہ اِس پہلو پر بھی کچھ غور کریں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے