• جمعرات. مئی 15th, 2025

رسالہ جامعہ کے تبصرے:ایک جائزہ

Byhindustannewz.in

فروری 20, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

جامعہ ملیہ اسلامیہ ۲۹؍ اکتوبر۱۹۲۰ء کو علی گڑھ میں قائم ہوئی اور پھر چند برس بعدی ہ دہلی منتقل ہوگئی۔اس ادارے کی وجہِ اساس ہی حبِّ وطن اور تعلیم کے ذریعے ذہنی وفکری آزادی کا حصول ہے۔لہٰذا جامعہ کے مقاصد سے متّفق وہ اساتذہ اور طلبا جوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے نکل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خیموں میں پڑھنے اور پڑھانے کے لیے آگئے تھے، انھیں علی گڑھ کی سر زمین ترک کرکے دہلی آنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔وہ اِسے اپنے خون جگر سے سینچنے کے لیے اس سے وابستہ ہی رہے۔ان کایہ عمل ہندوستان کی تاریخ حبِّ وطن اور تعلیم کا جزو لاینفک ہے۔اردو-ہندی کے ممتاز ادیب منشی پریم چند نے نومبر۱۹۳۲ء میں مطبوعہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ رپورٹ‘‘ میں جامعہ کے اساس گزاروں اور کارکنوں کے قومی وملّی جذبات کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔اس رپورٹ کا ایک اقتباس جامعہ کی قدیم مرکزی لائبریری (ڈاکٹر ذاکرحسین لائبریری) کے صدردروازے کے قریب ایک کتبے پردرج ہے۔اُس کے الفاظ یہ ہیں:’’دہلی جامعہ ملیہ اسلامیہ ان مسلم اداروں میں سے ہے جنھوں نے قوم کے سامنے سچی خدمت کا آدرش رکھا۔پہلے یہ جامعہ مرحوم حکیم اجمل خاں صاحب کی کوششوں سے علی گڑھ میں قائم ہوئی تھی مگر ۱۹۲۲ء کی ’’تحریک عدم تعاون‘‘کے بعد عوام کی بے حسی سے اسے دھچکا پہنچااور علی گڑھ سے منتقل کرکے دہلی لے جانا پڑا۔ وہاں کچھ مقامی اداروں او رریاستوں اور زیادہ تر عوام کی مددسے وہ اپنا کام کرتی رہی،لیکن اس بار تحریک شروع ہونے کے بعد ریاستوں سے ملنے والی امداد بند ہوگئی اور اسے صرف عوام کی امداد اور اپنے ملازمین کے تعاون اور ایثار کاسہار رہ گیا۔اس صورت حال میں بھی اساتذہ نے ایسی غیر معمولی لگن اور جوش کے ساتھ کام کیا کہ بہت تھوڑے سے گذارے پر رہتے ہوئے بھی برابر خدمت میں لگے رہے۔ان میں سبھی اتنے لائق تھے کہ ان کے لیے کسی اور ادارے میں جگہ مل سکتی تھی مگر انھوں نے جامعہ ملیہ کا دامن نہ چھوڑا اور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہوئے خوش دلی سے اور بے پناہ جوش کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ان سب مشکلات کے باوجود بھی ان کے پاس اپنی کئی عمارتیں ہیں، کتب خانہ ہے اور اشاعت وطباعت کا شعبہ ہے۔اب جامعہ نے دہلی سے سات میل (کی دوری) پر اوکھلا میں دوسوپچاس ایکڑ زمین بھی حاصل کرلی ہے جہاں ادارہ کی کئی عمارتیں بنیں گی۔یہ ہے مشنری لگن سے کام کرنے والوں کا صلہ۔مسلمانوں میں سرکار کا منھ تاکنے کا جو ایک رویہ ہے اس کا یہاں نام بھی نہیں۔ یہ خود اعتمادی ،عزت نفس اور حب الوطنی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔‘‘(کتبہ ذاکر حسین مرکزی لائبریری،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)


ایک بیدار مغز معاشرے کی تشکیل جامعہ ملیہ کا اولین مقصد رہا ہے۔اس مقصد تک رسائی کے لیے کئی راہیں اختیارکی گئیں جن میں تعلیم سر فہرست رہی ہے۔ذمے داران جامعہ نے تعلیم تعلّم کی خاطر خواہ صورتوں کے لیے متعدد اقدامات کیے جن میں ’’رسالہ جامعہ‘‘کی اشاعت بھی شامل ہے۔


جامعہ ملیہ کے قیام کے تقریباََ تین سال بعد یعنی۱۹۲۳ء میں ’’رسالہ جامعہ ‘‘کی اشاعت علی گڑھ میں شروع ہوئی مگر ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۰ء تک (تقریباََ۱۳؍سال) متعدد ملکی اورمالی وجوہ سے ’’رسالہ جامعہ‘‘ شائع نہ ہوسکا۔ اس کی از سرِنواشاعت کا آغازنومبر۱۹۶۰ء سے شروع ہواجو ہنوز جاری ہے۔


مدیران صاحبان نے ’’رسالہ جامعہ‘‘کی ادارت کے دیگر فرائض کے ساتھ ساتھ متعدد علمی و ادبی کتابوں پر تبصرے بھی سپرد قلم کیے۔ان تبصروں میں کارفرماعلمیت وادب فہمی آج بھی اہل نظر کے لیے سامانِ بصیرت بن سکتی ہے۔اکثروبیشتر حضرات نے بالعموم تبصروں پر اپنے پورے پورے نام شائع نہیں کیے، بلکہ اُنھوں نے اپنے نام کے محفّف یا’’ناقد‘‘اور ’’مدیر‘‘ جیسے الفاظ درج کیے ہیں،مثلاً:نورالرحمن’’ناقد‘‘، مولانا اسلم جیراج پوری’’ا،ج‘‘، ڈاکٹر سیدعابدحسین’’ع،ح‘‘، ڈاکٹرعبدالعلیم’’ع،ع‘‘، پروفیسرمحمدعاقل ’’م، ع‘‘، ڈاکٹر نورالحسن ’’مدیر‘‘، عبداللطیف اعظمی ’’ع،ل،ا‘‘، پروفیسرضیاء الحسن فاروقی’’ض،ح،ف‘‘۔


مدیرانِ رسالہ جامعہ کے علاوہ دیگر صاحبان قلم نے بھی تبصرے لکھنے کے فرائض انجام دیے ہیں اور اپنے پورے پورے نام لکھنے کی بجائے کچھ مخفف لفظوں کا استعما ل کیا ہے، مثلاً: ’’م،م، (غالباََ پروفیسر محمد مجیب)’’س،ا‘‘(غالباََڈاکٹر سلامت اللہ)وغیرہ


زمانۂ اشاعت کے اعتبار سے ’’رسالہ جامعہ‘‘ماہنامہ’’معارف‘‘اعظم گڑھ کے بعد سب سے قدیم علمی و ادبی رسالہ ہے۔ابتدا میں ’’رسالہ جامعہ‘‘کے چھ شمارے ایک جلد تصورکیے جاتے تھے۔ یہ عمل ۱۹۷۵ء تک جاری رہا۔۱۹۷۶ء سے بارہ شماروں کی ایک جلد تصور کی جانے لگی۔ ابتدا سے ۱۹۷۵ء تک رسالے کی جلدوں کا شمار اور شمارہ نمبر کے اندراج میں بے احتیاطی اور تسامح ضرورمحسوس ہوتا ہے مگر ۱۹۷۶ء سے اس میں باقاعدگی پیدا ہوگئی ۔


سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’’رسالہ جامعہ‘‘ کے ان تبصروں کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے نزدیک جواب یہ ہے کہ یہ رسالہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ترجمان ہی نہیں رہا ہے، بلکہ اِس نے اردو زبان وادب کے لیے وہ منفرد کارنامے انجام دیے ہیں جن کی مثال اس عہد کے دیگر رسالوں میں کمیاب ہے،بایں سبب اس کی ضرورت ہے۔

صرف تبصروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مدیروںنے اپنے اپنے عہدمیں شائع ہونے والی علمی،فکری،ادبی،مذہبی، سیاسی،ملّی اور معاشرتی موضوعات کی مطبوعہ کتب ورسائل پر تبصروں کے ذریعے اپنے قارئین کی ذہنی آبیاری کا فریضہ انجام دیا ہے۔
تبصروں کے لیے رسالے میں بالترتیب تین درجِ ذیل عنوان قائم کیے گئے، مثلاً:
۱۔مطبوعات جدیدہ ۲۔تبصرہ وتنقید ۳۔تعارف وتبصرہ


’’رسالہ جامعہ‘‘نے نظم ونثر میں مطبوعہ کتب پرتبصروں کا ایسا معیار قائم کیا جو اِس لحاظ سے آج بھی راہ نما کہا جاسکتا ہے کہ اِن کے مطالعے سے نہ صرف قارئین بلکہ صاحبانِ قلم بھی اظہاروبیان کے گُر سیکھ سکتے ہیں۔ اِس کے تبصرے انتہائی متنوع رہے ہیں۔ مدیرانِ گرامی نے غزل،نظم،رباعی، قطعات اورمثنوی کو بھی جانچا پرکھا اور داستان، افسانہ، ناول، ڈرامے ، تذکرے، مکتوبات، تراجم، سفرنامے اور خصوصی شماروں وغیرہ پر بھی گہری نظر ڈالی۔شعرونثر کی اِن عام اصناف کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی علوم اور مذہبیات پر مبنی کتب بھی ان کی فہم کے دائرے میں آتی رہیں۔اس کے مبصّرین خواہ مدیر ہوں یاغیرمدیر، اپنے فن کے ماہر اور ہرفن مولا محسوس ہوتے ہیں۔ وسیع علم اور گہری فکرکے حامل یہ مبصّرین،علمی وادبی دیانت اور غیرجانب داری کا پیکر بھی تھے۔ یہ حضرات تبصرہ کرتے وقت نہ کسی مشہور شخصیت سے مرعوب ہوتے، نہ کسی نوع کی جانب داری سے کام لیتے اور نہ ہی کسی چھوٹے پر اپنی علمیت کا رعب جماتے تھے۔ اگر کسی سقم یا کوتاہی کا ذکر کرتے تو اُس کا مقصد تعمیری ہوتا تھا،تخریبی نہیں۔نمونے کے بطورچند تبصروںکے کچھ اقتباس پیش ہیں:
قیس رامپوری کے افسانوں کا مجموعہ’’ نگہت‘‘پرتبصرہ کرتے ہوئے مبصّر’’ص،ع‘‘نے لکھا ہے: یہ ناول فرضی اور ذہنی رومانیت سے لبریز ہے ۔کاش!وہ دنیائے آب وگل سے اتنے فاصلے پر نہ ہوتے کہ ان کے تحریر کردہ واقعات کو لگ بھگ ناممکن الوقوع یا من گھڑنت کہا جاتا مگر آسان فہم اور لطافت کے سبب یہ ناول قابل مطالعہ ہے۔(دسمبر۱۹۴۳ )
’’تمدن عتیق‘‘کے بارے میں مبصّر’’مدیر‘‘نے لکھا ہے: یہ کتاب تاریخی نوعیت کی ہے، اس لیے اس کا اسلوب بھی مؤرخانہ ہونا چاہیے۔محض اہم حالات اور واقعات جمع کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ انھیں سمجھانا اور زندگی سے جوڑنا نہایت ضروری ہے لیکن مولف نے اس پہلو کو کسی قدر نظر انداز کردیا ہے۔پھر بھی یہ کتاب استفادہ کے قابل ہے۔(ستمبر۱۹۳۶)

’’رسالہ جامعہ‘‘کے تبصروں کی یہ بھی خصوصیت رہی ہے کہ اگر زیرتبصرہ کتاب میں بیان شدہ فن اور موضوع سے انصاف نہیں ہوا ہے تو تبصرہ نگار نے بالعموم اس کی خوبیوں اور خامیوں کو واضح کرنے کے ساتھ اس فن پر لکھنے کا ہنر بھی بیان کیا ہے۔مزید برآںان تبصرہ نگاروں کی نظر صرف موٹی موٹی باتوں پر ہی نہیں بلکہ ایسے نازک ولطیف پہلو پربھی گئی ہے جو بظاہر معمولی محسوس ہوتے ہیں مگر جب ان کی طرف توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ یقیناََ قابل توجہ پہلو تھا۔چناں چہ ڈاکٹر سعیداحمد کی تصنیف’’دامن باغباں‘‘کے افسانے میں ایک بے علم کردار مولابخش کی زبان سے قرآنی تلمیح ’’اولادکافتنہ‘‘ اداکرایا گیا جسے مبصّر’’ا،ج‘‘نے غیرمناسب قرار دیا اور کہا کہ یہ دانشوروں کی نگاہ میں مستبعد امر ہے۔ (ستمبر۱۹۳۲)


چندلفظوں میں اہم امورکی طرف اشارہ کردینا ان تبصروں کا خاصّہ رہا ہے،مثلاً:سات ڈراموں کے مجموعے ’’بچہ کا دل‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے مبصر’’مدیر‘‘نے لکھا ہے:
’’یہ سات ڈراموں کا مجموعہ ہے اور خواجہ حسن نظامی صاحب،شوکت تھانوی صاحب، فریدجعفری صاحب نے اس کا مقدمہ، دیباچہ اور تعارف لکھاہے، ڈرامے سب بالکل مہمل ہیں ۔‘‘(جنوری۱۹۳۷)

یوسف سلیم چشتی کی تصنیف’’تعلیمات اقبال ‘‘پر مبصر(ا،ا،س) نے اوّلاََ یہ خیال ظاہر کیا کہ یوسف سلیم کی عقیدت نے کتاب کی ادبی حیثیت کم کردی ہے،اس کے بعد لکھا ہے:’’ویسے بھی یہ دور اقبال کی پرستش کا ہے، ان پر صحیح تنقید کا دور بعد میں آئے گا۔‘‘ (دسمبر۱۹۴۰)

عبدالحلیم شرر کی کتاب ’’گذشتہ لکھنو‘‘ کے بارے میں تبصرہ نگار (ع،ل،ا) کا کہنا ہے:’’جناب رشید حسن خاںصاحب نے اصلاح املا میں جو تصرفات کیے ہیں …میرے خیال میں ان کے ذاتی اور انفرادی خیال کو مکتبہ جامعہ کو آنکھ بند کرکے نہیں مان لینا چاہیے تھا۔‘‘ مثلاً:’عش عش‘ کو شوق اصلاح میں انھوں نے ’اش اش‘کردیا ہے۔(جولائی ۱۹۷۱ء)


مذکورہ بالااقتباسات سے ظاہر ہورہا ہے کہ مبّصرین جامعہ نہ صرف بے جا مدح وتحسین سے گریز کرتے بلکہ ادارہ جامعہ پر بھی تنقید کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔میرے خیال میں آج کل کے تبصروں میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں۔


’’رسالہ جامعہ‘‘ کی غیرجانبداری کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ غیروں کی تعلیمات پرمشتمل کتابوں کو بھی اپنے تبصرے میں شامل کیا ہے، مثلاً:’سوامی دیاننداور ان کی تعلیم‘جو خواجہ غلام الحسنین کی تالیف ہے۔کچھ کتابوں کے تبصرے دو دو بار بھی شائع ہو ئے ہیں جو یا تو جدید اشاعت پر کیے گئے ہیں یا پھر ایک ہی کتاب پر دو الگ الگ مبصّرین نے تبصرہ کیا ہے جیسے:مہدی افادی کی کتاب’’افادات مہدی‘‘ مولانا سلیمان ندوی کی کتاب ’’بشری‘‘اور سجادحسین انصاری کی کتاب’’محشر خیال ‘‘وغیرہ۔
علاوہ ازیں محمد احمد بیخود دہلوی کی کتاب’’گنجینۂ تحقیق‘‘کے ایک ہی ایڈیشن پر دو لوگوں نے تبصرہ کیا ہے: پہلا تبصرہ ع،ح، (سیدعابد حسین ) کا ہے اوردوسرا تبصرہ مرزا ہادی رسوا کا، جس کو مدیر نے تبرکاََ کہہ کر شائع کی ہے۔


’’رسالہ جامعہ‘‘ کے تبصروں کی طوالت اور اختصار کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مدیرانِ جامعہ نے تبصرے کے لیے تمام موصولہ کتب کو شاملِ تبصرہ کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں شامل کچھ تبصرے انتہائی مختصر ہیں، کچھ مختصر ہیں، کچھ طویل ہیں، کچھ طویل ترین اور کچھ متوسط،مثلاً:
۱۔ وہ تبصرے جو دوتین سطروں سے پانچ سات سطروں پرمشتمل ہیں اُنھیں ہم انتہائی مختصر کہہ سکتے ہیں۔
۲۔وہ تبصرے جوچھ سات سطروں سے پچیس تیس سطروں کے درمیان ہوتے ہیں اُنھیں ہم مختصر کہہ سکتے ہیں۔
۳۔وہ تبصرے جو پچیس تیس سے سطروں سے سوڈیڑھ سو سطروں پر مشتمل ہوتے ہیں اُنھیں ہم متوسط کہہ سکتے ہیں۔
۴۔وہ تبصرے جو سوڈیڑھ سو سطروں سے دوسو سطروں پر مشتمل ہوتے ہیں اُنھیں ہم طویل کہہ سکتے ہیں۔
۵۔کچھ تبصرے ایسے ہیں جنھیں ہم طویل ترین کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ تبصرے ہیں جو دس صفحات یا اس سے زائد صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں، بلکہ کچھ تبصرے تو اٹھارہ صفحات اور کچھ تبصرے قسطوں میں شائع ہوئے ہیں، مثلاً: قاضی عبدالودود کا ایک تبصرہ جو اُنھوں نے ’’دیوان عزلت‘‘پر لکھا ہے وہ ۱۸؍ صفحات پر مبنی ہے،اور ’’دین الٰہی اور اس کا پس منظر‘‘ پر جو تبصرہ لکھا گیا ہے وہ چار قسطوں میں شائع ہوا ہے اور ہرقسط انتہائی طویل ہے لیکن ہم کسی تبصرے کو بے سود اور بے سبب مختصر و طویل نہیں کہہ سکتے،کیوں کہ یہ تمام تبصرے نہایت عمدہ اورقابل توجہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے