ڈاکٹر جہاں گیرحسن
22؍جنوری 2024 کےبعد ہندوستانی سیاست میں ایک اتھل پتھل کا دور چل نکلا ہے۔ کب کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں۔ کون کب کیا چال چل جائے کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے۔ کون کس سیاسی جماعت سے ہاتھ ملا لے کچھ خبر نہیں۔ کارکنان مرتے ہیں تو مریں اِس سے کسی سیاسی جماعت پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کل تک جو اِنسان حزب مخالف میں رہتے ہوئے شدید بدعنوان نظر آتا ہے یرقانی جماعت میں شامل ہوتے ہی وہ ہرطرح کی بدعنوانیوں سے پاک ہوجاتا ہے اور جس کی گردن پر اِی ڈی کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے یرقانی رنگ میں رنگنے کے بعد اُس کی گردن میں پھولوں کا ہار پڑ جاتا ہے۔ آج کا حکمراں اَپنی کارکردگیوں پر روشنی ڈالنے کی جگہ حزب مخالف کی کمیاں شمار کرنے کرانے میں اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو ایسا اِس لیے ہے کہ آج کے حکمراں کو نہ تو ملک کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ عوامی فلاح وبہبود سےکوئی شغف، اُسے تو اپنے مقاصد کے حصول اور ایوان میں کرسی سے مطلب ہوتا ہے بس، اس کے علاوہ اُسے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ بایں سبب مقاصد کی برآری کے پیش نظر معمولی سے معمولی روکاوٹ کو بھی برداشت نہیں کرتا اور اِس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اُدھوٹھاکرے، لالو پرشاد، تیجسوی، ہیمنت سورین، اروندکیجریوال وغیرہ اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہاں تک کہ حواریوں میں سے بھی اگرکسی سے کوئی خطرہ لاحق ہو تو اُسے ٹھکانہ لگانے میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ شتروگھن سنہا، جسونت سنگھ، یشونت سنہا، شیوراج سنگھ وغیرہ اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔ گویا سیاسی حکمراں کسی کا نہیں ہوتا بلکہ اُسے محض اقتدار سے پیار ہوتا ہے۔ نیز حواریوں اور مخالفین کو زِیردست رکھنے کے لیے اُسے اُن اسباب کی تلاش بھی رہتی ہیں جن سے بخوبی سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے اور اقتدار تک پہنچنے میں اُسے آسانی ہو۔ اِس سلسلے میں آج کل رونما والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یکے بعد دیگرے کئی واقعے سامنے آتے ہیں جو ایک دوسرے سے کافی مربوط ہیں اور 2024ء میں نمایاں کردار نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،مثلاً:
(1)22؍جنوری 2024ء میں پران پرتشٹھا کا انعقاد: باوجویکہ مندر کی تعمیری نامکمل تھی اور شنکر آچاریہ جیسے عظیم مذہبی رہنما ؤں نے اِس کی شدید مخالفت کی تھی۔ (2)رِیاست بہار میں تختہ پلٹ اور یرقانی جماعت کا اپنے دیرینہ مخالف سے سیاسی اتحاد: باوجودیکہ ایک دوسرے سے اتحاد نہ کرنے کی قسمیں کھائی گئی تھیں لیکن سیاسی مفاد کے پیش نظر دیرینہ دشمنی بھی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ (3) یکے بعد دیگرے بھارت رتن کے لیے نامزد شخصیات کا اعلان: چناں چہ کرپوری ٹھاکر کی نامزدگی کا مقصد رِیاست بہار کے رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کو اپنے حق میں رام کرنا ہے۔ چوہدھری چرن سنگھ کی نامزدگی کے پیچھے راشٹریہ لوک دل اور اُس کے حامیوں پر کمنڈ ڈالنا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی نرسمہا راؤ اور لال کرشن جیسوں کی نامزدگی سے یرقانیوں کا اعتماد بحال رکھنا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ راجیو گاندھی نے جسے ٹکٹ دینا مناسب نہیں سمجھا اور لال کرشن اڈوانی کی رقابت میں جس کی پیشانی پر بابری مسجد گرائے جانے کا نمایاں اور اَنمٹ داغ ہے اُسےبھارت رتن دیا جارہا ہے۔ یہ کتنا عجیب ہے؟ بذات خود جناب اڈوانی کی خاطر خواہ خدمات نہ ہونے کے بعد بھی بھارت رتن سے نوازا جانا کسی المیے سے کم نہیں۔ بلکہ ہمارے خیال میں تو یہ بھارت رتن کی سخت ناقدری ہے اور اِس کے باعث اُس عظیم الشان ایوارڈ کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ جب کہ سوامی ناتھن کی نامزدگی کچھ حد تک بیلنس بنانے کی ایک کوشش کہی جاسکتی ہے۔ (4)گیان واپی مسجد کا مسئلہ: سروے اور پوجا-پاٹ کی اجازت حاصل کرلینے کی شکل میں جہاں اکثریت کو لام بند کرنے اور اُنھیں پُرجوش رکھنے کا سنہرا موقع تلاش کرلیا گیا ہے وہیں بابری مسجد کے بعد یرقانی جماعت کو اَپنے سیاسی مفاد کی برآری کے لیے ایک اور اہم ہتھیار ہاتھ لگ گیا ہے۔ (5)اشتعال انگیزی کے نام پر مسلم مذہبی رہنماؤں کی گرفتاری: حالاں کہ اِس کے برخلاف یرقانی اشتعال انگیز شتر بےمہار کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں اور اُن پر کوئی قانونی لگام لگانے والا نہیں۔ (5) اُتراکھنڈ میں یکساں سول قانون کے نام پر اقلیتوں کے مذہبی جذبات سے کھیلواڑ۔ (6)ہلدوانی میں مذہبی مقامات پر منظم بلڈوزر کا چلنا اور پھر اِس کے پس پردہ اقلیتوں پر منصبوبہ بند یکطرفہ کارروائی۔ (7)2024ء انتخاب سے پہلے شہری ترمیم قانون کے نفاذ کا اعلان وغیرہ:اِن تمام اقدامات کے پیچھے ملکی اور عوامی فلاح و بہبود کم ہے اور سیاسی مفاد زیادہ ہے۔ حالاں کہ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہےکہ اِس قانون میں بظاہر مسلمانوں کے لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں بباطن اِس خدشے سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس کے پس پردہ مسلمانوں کی تخریب کا موقع نکالا جاسکتا ہے اور سیاہ قانون ٹاڈا کی طرح اِسے بھی منظم طور پر مسلمانوں کے خلاف اِستعمال کیا جاسکتا ہے۔ جیساکہ ٹاڈا قانون محض دہشت پسندوں پر بندش کے لیے نافذالعمل کیا گیا تھا لیکن اُس کی آڑ میں بےقصور مسلمانوں کو جس قدر پھنسایا گیا وہ جگ ظاہر ہے۔
اِن تمام انتخابی واقعات کی رونمائی اور اِن کی منصوبہ بند تیاریوں کو دِیکھتے ہوئے ہمارا ماننا ہے کہ اگر یرقانی افکار و خیالات کے حاملین اپنے اپنے انداز میں مذہبی وسیاسی اور قومی سطح پر 2024ء میں کامیابی کے راستے ہموار کررہے ہیں اور اگر کسی بھی حال میں اپنے اصول ونظریات اور مشن سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور اَپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہرحد پار کرنے کو تیار ہیں، تو ہمیں بھی اِس میں اُلجھنے کی بجائے کہ یرقانی حکمراں صحیح ہیں یا غلط! ہماری تمام تر توجہات اِس امر پر مرکوز ہونی چاہیے کہ ملکی وملی اور معاشرتی سطح پر 2024ء میں اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیےہم کیا کررہے ہیں؟ مذہبی اور سیاسی سطح پر تمام تر نامساعد حالات سے نجات پانے اور مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے پاس کیا منصوبے ہیں؟ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہتے ہوئے اگر اَکثریت کی ساری وفاداری اُن کی قوم کے حق میں محفوظ ہوسکتی ہے، تو ہم مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہتے ہوئے اپنی وفاداری اپنی قوم کے حق میں محفوظ کیوں نہیں رکھ سکتے؟ آخر کب تک ہم اپنی قوم اور اپنی وفاداری کو محض ایک ٹکٹ، ایک عہدہ اور چند ٹکوں کے عوض بیچتے رہیں گے؟ لہٰذا ہم سبھی تمام شکوہ-شکایت کو بھلادیں اور 2024ء کی تیاری میں مصروف ہوجائیں اور یہ تیاری اِس نہج پر کریں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہمارا بندر بانٹ نہ کرسکے، کیوں کہ جس دن ہم سیاسی جماعتوں کے بندر بانٹ سے محفوظ ہوجائیں گے اُس دن سیاست کا نقشہ بدل جائےگا اور سیاسی محاذ پر ہمارا وقار بھی بحال ہوجائےگا۔ اِس لیے ہم لوگ اپنے آپ کو اِس قدر مضبوط و منظم کریں کہ ہمارے اتحاد واتفاق میں کوئی سیندھ نہ مارسکے اور اِس کے لیے لازم ہے کہ ہم سب یہ تہیہ کریں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے جھانسے میں نہ خود آنا ہے اور اَپنے بھائیوں کو آنے دینا ہے، اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ہمیں خوف وہراس میں مبتلا ہونا ہے۔ کیوں کہ ہم اللہ ہی کے لیے دنیا میں آئے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف ہی ایک دن پلٹ جانا ہے۔ اِس کے ساتھ ہم لوگ اپنے آپ کو اِس کے لیے بھی تیار کرلیں کہ نہ ہمیں کسی جماعت کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھنا ہے اور نہ کسی کی بخشش وعنایات کا لالچ رکھنا ہے۔ بلکہ ہم، محض اپنے مشن کو سمجھیں۔ اَپنے مقاصد کے حصول پر سارا کا سارا فوکس کریں اور 2024ء کی سیاست میں کلیدی کردار نبھانے کے لیے ہم سب :اپنے اندر مطلوبہ صلاحیت وقابلیت پیدا کرلیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔بقول شاعر:
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کیسا
ضرب مرداں سے اُگل دیتا ہے پتھر پانی

