‘‘احترام انسانیت سے متعلق اسلامی تعلیمات ونظریات اختیار کیے بغیر صلح وآشتی اور انسان دوستی کا تصورناممکن ہے’’
ڈاکٹر جہاں گیس حسن
چوں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم بذات خود اِسلام کو سمجھیں، اس کی تعلیمات کو جانیں، اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں اور پھر اِس میں انسانیت کا کیا تصور ہے اُس کی اشاعت عام کریں۔ تاکہ بندگان خدا صحیح طورپر اِسلام کو جان سکیں اور اُس کے انسانیت بھرے پیغام سے ہم آہنگ ہوسکیں اور اِس سے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جارہی ہیں وہ دور ہوسکیں۔
چناں چہ اِسلام میں انسانیت کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے آئیے ایک نظراِس پر ڈالتے ہیں مثلاً:
جو بھی بلاوجہ کسی انسان کا قتل کرتا ہے گویا وہ پوری انسانی برادری کا قاتل ہے۔جیساکہ ارشادرَبانی ہے: جس نے کسی جان کا قتل بغیر قصاص یا بغیر کسی جرم کے کیا تو اُس نے تمام انسان کا قتل کیا اور جس نے کسی ایک جان کو قتل ہونے سے بچا لیا گویا اُس نے تمام انسان کو قتل ہونے سے بچا لیا۔ (سورۂ مائدہ:32)
مزید اِرشاد ہے: جس جان کو اللہ تعالیٰ نے محترم بنا رکھا ہے اُسے ناحق (بلاوجہ/یوں ہی) قتل نہ کرو۔ (بنی اسرائیل:33)
2نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف جنگی قیدیوں کے آرام کا خیال رکھتے تھے بلکہ اُنھیں قتل کرنے کی بجائے فدیہ کے عوض آزاد کردینا زیادہ پسند فرماتے تھے۔ چناں چہ جب بعض صحابۂ کرام نے بدری قیدیوں کی گردنیں اُڑا دینے کا مشورہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے منھ پھیر لیا۔ لیکن جب حضرت ابوبکر نے فدیہ کے عوض قیدیوں کی رہائی کا مشورہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول ہی نہیں فرمایا، بلکہ آپ کے چہرۂ انور سے سارے آثارِ غم بھی کافور گئےاور اِس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اسیرانِ بدر کو فدیہ کے عوض آزاد فرما دیا۔ (مسنداحمد، حدیث:13555)
3ایک غیرمسلم کا جنازہ سامنے سے گزرا، تو اُسے دیکھتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے۔ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے! اِس پر آپ نےارشاد فرمایا کہ جب جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔ (بخاری، حدیث:1311)
4 احترام انسانیت ہی کے پیش نظر، یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی انتقال کرجائے تو پورے اعزاز کے ساتھ میت کو غسل دیا جائے۔ صاف ستھرا کفن پہنایا جائے۔ اُسے خوشبو میں بسایا جائے۔ اُس کی نماز جنازہ پڑھی جائےاور پھر سلیقے سے اُسے دفن کیا جائے۔ یہاں تک کہ اُس کے حق میں اجتماعی طورپر خیروعافیت اور اُس کی مغفرت و بخشش کے لیے دعائیں بھی کی جائیں۔
5 اسلام کی آمد سے پہلے جنگوں میں دشمنوں کے ساتھ انتہائی غیرانسانی رویے اختیار کیے جاتے تھے۔ چہرے بگاڑ دیے جاتے تھے۔ جسمانی اعضاتک کاٹ دیے جاتےتھے۔ مگراِسلام نے انسانی حرمت کے پیش نظر اِن تمام غیراِنسانی کاموں پر سختی سے پابندی عائد کردی اور اِس طرح لاشوں کی بےحرمتی کو ناجائز قراردیا۔ اِس کےعلاوہ سختی کے ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا تھا کہ خبردار! جنگ کے دوران بچوں، بوڑھوں اورعورتوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے۔ اگر وہ مقابلے پر آئیں بھی تو اُنھیں نظر انداز کردیا جائے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر کے عہد میں جب فوج کسی جنگی مہم پر بھیجی جاتی تو یہ تاکید کی جاتی تھی: اےلوگو! خیانت نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا، مقتول کا چہرہ نہ بگاڑنا، بچے، بوڑھے یا عورت کو قتل نہ کرنا، باغات کو برباد نہ کرنا، نہ اُنھیں جلانا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، کسی بکری، گائے / اونٹ کو صرف اور صرف کھانے کے لیے ہی ذبح کرنا، بلاوجہ اُسے قتل نہ کرنا وغیرہ۔ ( کنزالعمال، حدیث: 30268)
6پھر اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ جزاوسزا اور تبشیر وانذار کے پردے میں بھی احترام انسانیت اور اِنسان دوستی کا سبق ازبر کرایا گیا ہے۔ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے کسی بھی جان دارکا چہرہ بگاڑا اور توبہ نہیں کی تو قیامت کے دن اللہ اُسے مثلہ اُٹھائےگا۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، کتاب الحدود، باب نہی عن المثلہ)
7 سہیل بن عمر وجو اِنتہائی فصیح اللسان تھا اور مجمع عام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریر یں کیا کرتا تھا، جب وہ بدر میں قید ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اِس کے نیچے کےدو دَانت اُکھڑوا دیجئے تاکہ پھرآپ کے خلاف نہ بول سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اُس کے عضو کو نہیں بگاڑوں گا ورنہ اللہ تعالیٰ اُس کے بدلےمیرے اعضا بھی بگاڑدےگا اگرچہ میں نبی ہوں۔ (تاریخ طبری،ذکر بقیۃ ما کان
مذکورہ بالا آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہےکہ احترام انسانیت بہرحال لازم ہے اور جہاں تک ممکن ہو انسانی جان کو تحفظ فراہم کیا جائے، اور یہ احترام انسانیت، محض رنگ ونسل اور مذہب وبرداری کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ انسان خواہ جس رنگ ونسل اور جس مذہب وبرادری سے ہواُس کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت بہت ہی ضروری ہے۔ لیکن صد حیف کہ آج کا مہذّب وماڈرن انسان بذات خود اِنسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے، اور مقام حیرت یہ ہے کہ اِس طرح کی تمام غیراِنسانی حرکتیں انسان دوستی اور حقوق انسانی کی بحالی کے نام پرکی جارہی ہیں۔ آج انتہاپسندی اُس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ کیا اسپتال اور کیا اسکول اور کیا مذہبی مقامات، بلاامتیازہرایک کو تہہ وبالا کیا جارہا ہے۔ بلکہ واضح لفظوں میں کہا جائے تو آج جس طرح سے اَمن پسندی کے پردے میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نہ عالمی برادری کے حق مفید ہے اور نہ انسانی برادری کےحق میں۔
حاصل کلام یہ کہ اسلام اور پیغمبراِسلام نے چودہ-پندرہ سو سال پہلے انسانیت کا جو رَہنما تصور پیش کیا تھا اُس کی صداقت اور حقانیت کوآج تمام انسانوں کے ذہن ودماغ میں بٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔ تاکہ ہرسطح پرصلح وآشتی، انسان دوستی اور اِحترام انسانیت کی فضا قائم ہو اور کسی بھی نہج پر انسانی حرمت وشرافت کی پامالی نہ ہوسکے۔
