ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اس میں دورائے نہیں کہ اللہ رب العزت نے انسان کی بہترین صورت میں تخلیق فرمائی اوردنیا کی شکل میں اُسے ایک خوب صورت پناہ گاہ عطا فرمایا، لیکن انسانوں کی نادانی، حرص وہوس اورخودغرضی نے آج پوری انسانی برادری کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے۔ انسانوں نے اپنی شکل وصورت کی نورانیت کو غائب تو کیا ہی ہے اس کے ساتھ اپنے کرداروعمل سے پوری انسانی برادری کو بھی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ نتیجے کے طورپرآج انسانی برادری کا ہرفرد، خواہ چھوٹا ہویا بڑا، امیرہویا غریب سب کے سب چین وسکون کی دولت سے محروم نظرآتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے کیا راز ہے کہ آج کا انسان ہر لحاظ سے ترقی یافتہ ہے، چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے، سمندر میں تیررہا ہے، ہواؤں پرحکومت کررہا ہے، پھر بھی وہ چین وسکون کے لیے ترس رہا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے اپنی فطرت سے بغاوت کرلی ہے، اپنی محبت وعداوت کا معیاربدل لیا ہے، حسد وکینہ جیسی مہلک بیماریاں اپنے اندر پیدا کرلی ہے اوردولت وثروت کی اندھی محبت نے اُن کے شعورواِحساس کو چھین لیا ہے، جب کہ اِس کے برخلاف کسی بھی قوم وبرادری کا انسانی خوبیوں سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہے تبھی وہ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کرسکتا ہے اور اِنسانی معاشرے کی اصلاح وفلاح میں کوئی تعمیری کرداراَدا کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔
موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی قوم ہوجو محبت وعداوت کے صحیح معیارپر قائم ہو، حسد وکینہ جیسی جان لیوا بیماری سے پاک وصاف ہو، یا پھر دولت وثروت کی اندھی محبت میں انسانیت کا قتل نہ کررہا ہو، ورنہ بیشترقوم ان بُرائیوں میں سرسے پاؤں تک لت پت ہے، اورمزے کی بات یہ ہے کہ ہرقوم اسی میں فخر بھی محسوس کررہی ہے، جب کہ یہ تمام باتیں جس بھی قوم کے اندر پائی جائیں اُس کے لیے چلّو بھرپانی میں ڈوب مرنے کے برابر ہے۔ ان خرابیوں میں بالعموم ہرمعاشرہ اوربالخصوص ہندوستانی مسلم معاشرہ کچھ زیادہ ہی مبتلا ہے۔ آئیں ان بیماریوں سے نجات پانے کا صحیح اورآسان حل محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ کی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کریں جنھیں دنیا ’’بڑے پیرصاحب ‘‘ کے نام سے بھی جانتی اور پہچانتی ہے۔
محبت وعداوت کامعیار:ایک انسان کس بنیاد پر دوسرے انسان سے محبت کرے اور کس بنیاد پر دشمنی، کیوں کہ محبت وعداوت بھی دنیوی اوردینی دونوں معاشرے میں کامیابی کا ایک اہم حصہ ہے، اگر محبت وعداوت رکھنے میں توازن ( Balance) نہیں تو ممکن ہے کہ اچھے کاموں کے باجود انسان فوزوفلاح کی خوشبوسے محروم رہ جائے۔ چناں چہ محبت وعداوت کی بنیاد کی نشاندہی شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:’’جب تو اپنے دل میں کسی شخص کی محبت یا عداوت پائے تو اس شخص کے اعمال کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھ، اگر وہ اعمال کے لحاظ سے کتاب وسنت کا مخالف ہے تو تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی ومحبت پر خوش رہ۔ لیکن اگر اس کے اعمال کتاب وسنت کے مطابق ہیں پھر بھی تو اسے دشمن سمجھتا ہے تو تو نفسانی خواہشات میں گرفتار ہے اور اپنے ذاتی اغراض کے لیے دشمنی رکھتا ہے۔ اس بغض وعداوت کی وجہ سے تو اس پر ظلم کررہا ہے اوراللہ و رسول کے فرمان کی مخالفت کررہا ہے جو ایک جرم ہے، اس لیے اپنے اس بغض وعداوت سے بارگاہ الٰہی میں توبہ کراور اللہ سے خود اس کی اور اس کے نیک بندوں اور صالحین کی محبت کا سوال کر۔ اسی طرح جس شخص سے تو محبت رکھتا ہے اس کے افعال وکردار کتاب وسنت کی روشنی میں پرکھ، اگراس کے اعمال کتاب وسنت کے مطابق ہیں تو بے شک اس سے محبت رکھ اوراگر اس کے اعمال کتاب وسنت کے خلاف ہیں توتو اسے دشمن جان! تاکہ تیری محبت ودشمنی محض خواہشات نفسانی کے تابع ہوکرنہ رہ جائے، کیوں کہ تجھے اس کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے:’’نفسانی خواہش کے پیچھے نہ بھاگ، کیوں کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دےگی۔ (سورۂ ص:26، فتوح الغیب، مقالہ:31)
بےشک اِس گفتگو کے مخاطب بالخصوص مسلمان ہیں لیکن اِس کے پردے میں تمام مذاہب کے ماننے والوں سے خطاب کیا جارہا ہےکہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا انسان ہواَگروہ محبت وعداوت کے مذہبی اوردینی اصول ومعیار کو ملحوظ رکھتا ہے تویقیناً وہ بہت ساری ملکی اورمعاشرتی آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔یعنی آپس میں محبت ودشمنی کی بنیاد اَچھائی اوربُرائی پر رکھنی جانی چاہیے نہ کہ ذات پات اور قوم وبرادری کے نام پر۔ جیسا کہ آج کل اِس کا چلن ہندوستانی معاشرے میں بڑے پیمانے پر ہے۔
حسد وکینہ ایک بیماری: آج کل انسانوں کے درمیان حسد، کینہ، دشمنی اور جلن جیسی بیماریاں عام ہیں، اورنہ چاہتے ہوئے بھی انسان اس بیماری کے شکار ہورہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ انسان نہ ملکی سطح پر مطمئن ہے اور نہ ہی سماجی اعتبار سے پُرسکون۔ چناں چہ حسد وکینہ سے دوری اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے بڑے پیرصاحب فرماتے ہیں:’’کیا وجہ ہےکہ میں تجھے اپنے ہمسائے اورپڑوسی سے حسد کرنے والا دیکھتا ہوں؟ تو اُس کے خوردونوش، لباس ومکان، زن و مال اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی دوسری نعمتوں سے جلتا ہے۔ تجھے علم نہیں کہ حسد ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو ایمان کو کمزور، مولیٰ کی بارگاہ سے دور اوراللہ کی نافرمانی کا باعث بن جاتی ہے۔ کیا تونے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ حاسد میری نعمتوں کے دشمن ہیں اورحسد، نیکیوں کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ اے مسکین! تو اُس کی کس چیزپر حسد کرتا ہے؟ اُس کی قسمت پر یا اپنی قسمت پر؟ اگر تواُس کی قسمت پر حسد کرتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اُن کے درمیان اُن کے جینے کا سامان دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا۔‘‘ (سو رۂ زخرف:32) گویا ایک ایسے شخص پرجو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر صابر وشاکرہے، حسد وکینہ کے ذریعے ظلم کا ارتکاب کررہا ہے۔ خود ہی غورکروکہ تجھ سے زیادہ ظالم، بخیل، احمق اورکم عقل کون ہے؟ اگرتو اپنے تقدیرونصیب پر حسد کررہا ہے تو یہ اُس سے بھی زیادہ جہالت اور نادانی ہے، جان لے کہ تیرا حصہ غیر کوکبھی نہیں دیا جائے گا، کیوں کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:’’میرا فیصلہ بدلتا نہیں اور نہ میں بندوں پر ظلم کرتا ہوں۔‘‘(ایضاً، مقالہ:37)
شاید ہی کوئی ملک اورمعاشرہ ہوجوحسد اورکینے کی مار سے بچ گیا ہو۔ بالعموم پوری انسانی برادری اوربالخصوص پورا ملک ہندوستان حسد وکینے کی قہر کا شکارہے۔ ایسے ماحول میں بڑے پیرصاحب کی تعلیمات کی اہمیت وضرورت اوربھی دوچند ہوجاتی ہے، تا کہ مذہبی، ملکی، معاشرتی اور ذات برادری کے نام پرلوگوں کے دلوں میں جو حسد وکینہ گھرکرچکا ہے اُس سے ملک ومعاشرے کو نجات ملے اور پوری انسانی برداری حسد اورکینے جیسی ناپاک چیزوں اور بُری بیماریوں سے محفوظ رہے۔
مال وزرکی خرابی: مال ودولت ایک ایسی چیز ہے جوہر کسی کواَچھی اوربھلی معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ اسی وقت بہترہے جب فرائض اور واجبات (دینی ومعاشرتی ذمہ داری) کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اگریہ دولت، بندہ کو عبادت سے روکے اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں نہ آنے دے، توپھریہ کسی مصیبت سے کم نہیں بلکہ اِس بات کا خوف ہے کہ اُس کی وجہ سے کہیں کوئی وبال اور مصیبت نہ آجائے۔ اِس تعلق سے تنبیہ کرتے ہوئے بڑے پیرصاحب فرماتے ہیں:’’گر اللہ تعالیٰ تجھے مال ودولت عطا فرمائے اوراُس کی وجہ سے تواللہ تعالیٰ کی عبادت سے منھ پھیرلے تو دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ اُس کو تیرے لیے حجاب بنا دےگا اورممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے دولت وثروت بھی چھین لے اور تیری حالت بدل ڈالے… اوراَگر تو نے مال کو عبادت الٰہی کے فرائض کی بجاآوری میں رکاوٹ نہ بننے دیا تو وہ مال ہمیشہ کے لیے تجھے بخش دیا جائےگا، اس میں سے ذرہ برابربھی کمی نہ ہوگی اوروہ مال تیرا خادم اورتو اپنے مولیٰ تبارک وتعالیٰ کا خادم ہوگا۔ چناں چہ دنیا میں تونازونعم کی زندگی گزارےگا اورآخرت میں بھی ہمیشہ کے لیے جنت اوراعزازی طورپر صدیقین، شہدا اَور صالحین کی رفاقت حاصل رہے گی۔ (ایضاً، مقالہ:12)
القصہ! مال وزرکی ہوس نے انسان کو اِس قدر اندھا بنا دیا ہے کہ مقدس رشتوں کی پامالی اور اِنسانی برادری کا قتل آج عام بات ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی مال وزرکی چاہت و طلب نے لوگوں اِتنا بدحواس کردیا ہے کہ لوگ یہ بھی بھول بیٹھے ہیں کہ ایک عظیم ترین ہستی بھی ہے جس نے ساری چیزوں کوپیدا کیا ہے اوراُس عظیم ہستی کی مرضی کے بغیر ایک پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا ہے۔ لہٰذا مال وزراَوردولت وثروت کی ہوس رکھنے والوں کے لیے بڑے پیرصاحب کا یہ فرمان تازیانۂ عبرت ہے کہ مال ودولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی اورمعاشرتی ذمہ داریوں کو بھی ملحوظ رکھیں۔ یہ وہ قیمتی باتیں ہیں جنھیں اپنا کرانسانی برادری ہرعہد اَورہرزمانے کامیابی حاصل کرجاسکتی ہے۔
