ماہ محرم کے آتے ہی دل دماغ میں جو سانحہ سب سے پہلے ابھرتا ہے وہ کربلا کا سانحہ ہے جو سنہ61 ہجری میں رونما ہوا۔ یہی وہ دلدوزسانحہ ہے جس میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دردناک واقعہ پیش آیا جو اسلامی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اورجس سانحے نے پوری انسانیت کی چولیں ہلاکر رکھ دی تھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کیوں ایسا کیا کہ انھوں نے خود شہید ہونا اوراپنے گھرانے کو اللہ کی راہ میں قربان کرناگوارا توکرلیا لیکن یزید کی بیعت کوقبول کرنا پسند نہ فرمایا۔ آخر اس کے اسباب وعوامل کیا تھے؟ چناں چہ اس سلسلے میں جب ہم اسلامی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کئی اسباب وعوامل تھے:
۱۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ دین کی حفاظت اور فسق وفجورکا خاتمہ چاہتے تھے جس میں یزید ڈوبا ہوا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے اور خاموش رہ جاتے تو دنیا کے سامنے وہ دین نہ پہنچ پاتا جس دین کو لے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ یزید کا فسق وفجوراس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اگراس کو ختم نہیں کیا جاتا تو نہ صرف مسلمانوں کے اندر بے راہ روی حد سے بڑھ جاتی، بلکہ اصل اسلام پر بھی پردہ پڑجاتا اور لوگ دین کی حقیقت سے دورہوجاتے، اسی لیے امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آپ کے اس عمل کو بغاوت کا نام نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی ایسے شخص کی اطاعت سے منع فرمایا ہے جو اپنی خواہش کا غلام ہو اور فسق وفجورمیں مبتلا ہو۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: اس شخص کی اطاعت وفرماں برداری نہ کرو جس کے قلب کو ہم نے اپنے ذکرسے غافل کردیا ہےاورنہ اس شخص کی جو اپنی خواہش کی اتباع کرے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے- (کہف :۲۸) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ کی نافرمانی کے سلسلے میں کسی انسان کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ (مسند احمد)
۲۔ جن حالات میں کوفیوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بار بارخط بھیجا اور جن اسباب کا ذکرکرکے مدد کے طالب ہوئے، ان اسباب کی بنیاد پر مدد کرنا بہرحال لازم تھا، اگرامام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی مدد کرنے سے انکارکردیتے اوران کی مدد کو نہ پہنچتے توامام حسین پرہمیشہ کے لیے یہ الزام عائد ہوجاتا کہ کوفی فسق وفجور کے خاتمے کے لیے مدد کے طالب ہوئے لیکن امام حسین نے اہل کوفہ کی مدد کرنے سے انکارکردیا، ان کی مدد کو نہ پہنچے اوراس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ نے فسق وفجورکوپھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ چناں چہ پہلے آپ نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کووہاں بھیجا، تاکہ حقیقت حال کا پتہ چل سکے کہ کیا واقعی اہل کوفہ دین کے خیر خواہ ہیں یا محض ان کا دکھاوا ہے۔ اگر امام حسین رضی اللہ عنہ کو حکومت کی خواہش ہوتی (جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے) تواس کی تکمیل کے لیے نہ آپ کو کوفیوں کے خطوط کی ضرورت تھی اورنہ امام مسلم بن عقیل کو تحقیق حال کے لیے بھیجنے کی، بلکہ آپ خود تشریف لے جاتے، نیزاگرواقعی یہی بات ہوتی تواہل کوفہ کے خطوط آنے سے پہلے بھی آپ اپنی حکومت کا اعلان کرسکتے تھے اورمدینہ منورہ میں اپنی حکومت بھی قائم کرسکتے تھے، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کوحکومت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ بات صرف یہ تھی کہ آپ ایک فاسق وفاجرشخص کی بیعت کرنا نہیں چاہتے تھے۔
۔۳۔ پھرجب امام عالی مقام کربلاکی سرزمین پرپہنچے اورآپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات یزیدی سپہ سالارعمروبن سعد سے ہوئی تو آپ نے میٹنگ کے دوران یہ تین شرطیں رکھیں:
(۱) مجھے یزید سے ملنے کا موقع دیا جائے۔
(۲) مجھے سرحدکی طرف جانے دیا جائے۔
(۳)مجھے مدینہ منورہ لوٹ جانے دیا جائے۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ شرطیں نہیں مانی گئیں۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ قتل و قتال نہیں چاہتے تھے، بلکہ اس سے مسلمانوں کومحفوظ رکھناچاہتے تھے، ورنہ ایسی شرطیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ان تمام حقائق کو جان لینے کے بعد کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ اس لیے روانہ ہوئے کہ شرعاً وہاں جانا واجب تھا اور آپ نے یزید کی بیعت سے انکار اس لیے نہیں کیا کہ یزید نے امام حسین کا حق غصب کرلیا تھا، بلکہ بیعت سے انکار کی اصل وجہ یہ تھی کہ یزید کھلم کھلا فسق وفجور میں مبتلا تھا، جس پرآج بھی جمہورعلما کا اتفاق ہے۔چناں چہ آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ یاد حسین اور ذکر حسین کی محفلیں منعقد کرتے وقت خلاف شرع اعمال سے پرہیزکیا جائے اور یہ احتیاط بھی کیا جائے کہ کہیں جانے انجانے میں بھی کچھ ایسے اعمال نہ ہوجائیں جن کا تعلق فسق وفجورسے ہو۔ اوراس بات کوبھی دل ودماغ میں بٹھا لینے کی ضرورت ہے کہ یاد حسین یا ان کے ذکر کی محفلیں اگرشریعت کے دائرے میں ہیں تووہ قابل قبول ہیں اور ثواب کا باعث بھی، لیکن یادحسین یا ان کے ذکرخیرکے نام پر ایسی محفلیں جن میں شریعت کی پابندی نہ کی جائے اورشریعت مصطفوی کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے یقیناً نفرت کے لائق ہیں، کیوں کہ یاد حسین یا ذکرحسین کی ایسی محفلیں نہ تو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواورنہ خودامام حسین رضی اللہ عنہ کو۔ یوں ہی کربلا کے واقعات کو یاد کرنے کے ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے آفاقی پیغام کو عام کیا جائے اورجس طرح امام حسین نہ خودفسق وفجورمیں مبتلا تھےاور نہ ہی انھوں نے فاسق و فاجرکی امارت تسلیم کی اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ نہ ہم فسق وفجورمیں مبتلا رہیں اور نہ کسی فاسق وفاجرکی امارت وامامت تسلیم کریں، خواہ وہ کسی عالم دین کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، کسی شیخ کامل کا جانشیں ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہی فسق فجور کو کبھی بڑھنے دیں، بلکہ جس طرح امام عالی مقام اخلاص و تقویٰ سے مزین، متقیوں کی امارت میں رہنے والے تھے اسی طرح ہم بھی اپنے آپ کو اخلاص و تقویٰ سے آراستہ کرنےا ور مخلصین و متقین کی امارت قبول کرنے اور ان کی امامت کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کریں تبھی جا کرہم اپنے آپ کو حسینی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
