• منگل. اگست 19th, 2025

کیا آج گاندھی جی کی کچھ اہمیت ہے؟

Byhindustannewz.in

اکتوبر 3, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن


اِس میں دورائے نہیں کہ گاندھی جی ایک انٹرنیشنل شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک طرف ملکی سطح پر عوامی وسماجی خدمتگار کی حیثیت یاد کیے جاتے ہیں، تو دوسری طرف عالمی سطح پر، پُرامن ماحول، انصاف پسند سماج اور مساوی حقوق کے علمبردارکے طورپر جانے جاتے ہیں۔ عدم تشدد اور سچائی پر قائم رہتے ہوئے ترقی کی راہیں طے کرنا گاندھی جی کی تعلیمات کا اٹوٹ انگ مانا جاتا ہے، اورایسا اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے عمل وکردارسے ہمیشہ یہی پیغام دیا کہ کسی بھی نوع کی تبدیلیاں لانے اورحقوق حاصل کرنے کے لیے تشدد ضروری نہیں ہے، بلکہ سچائی کی راہ پر چلتے ہوئے پُرامن طریقے سے بھی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں اور حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ گاندھی جی کا ماننا تھا سچائی کے ساتھ رہنا، یہ مضبوط لوگوں کا ہتھیار ہے اور یہ بہرحال ہر طرح کے تشدد اورفتنہ وفساد کو رُوکتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں تقریباً ۲۱؍ برسوں تک عدم تشدد اورسچائی و یقین کے ساتھ نسلی امتیازات کے خاتمے اور سماجی اِنصاف کے قیام کے لیے برسرپیکار رہے۔ جب کہ ہندوستان میں اُن کا یہ سفر ۱۹۱۵ء-۱۹۴۷ء کی مدت پر مشتمل ہے۔ اِس دوران گاندھی جی نے بے شمار سیاسی وسماجی تحریکیں چلائیں۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے سخت سے سخت کنڈیشن میں بھی عدم تشدد اور سچائی سے بال برابر تجاوز نہیں کیا۔ تحریکات میں ’’انڈین کانگریس‘‘(۱۸۹۴ء)، ’’چمپارن ستیہ گرہ‘‘(۱۹۱۷ء)، ’’کھیڑا ستیہ گرہ‘‘(۱۹۱۸ء)، ’’عدم تعاون تحریک‘‘(۱۹۲۰ء)، ’’ڈاندی نمک تحریک‘‘(۱۹۳۰ء)، ’’ہندوستان چھوڑوتحریک‘‘(۱۹۴۲ء) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
علاوہ ازیں گاندھی نے پسماندہ طبقہ کو ’’ہریجن‘‘ کا نام دیا اور اُس کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کی لڑائی لڑی۔ معاشرے میں اُسے برابری کا درجہ ملے، اِس سلسلے میں انتھک کوششیں کیں، یہاں تک کہ اُس کے حقوق کی حصولیابی کے لیے’’ہریجن سیوک سنگھ‘‘(۱۹۳۲ء) قائم کیا۔ اُن کا ماننا تھا کہ’’ تعصب وجانداری اوربھید-بھاؤ، ایشوراوراِنسانوں کے خلاف ایک جرم ہے اوراِنسانیت پرایک بدنما دھبہ ہے۔ گاندھی جی نے ہندواورمسلمان کے درمیان اتحاد کوبھی فروغ دیا اور بین المذاہب ہم آہنگی قائم رکھنے کی تلقین وتاکید کی۔ اُن کا ماننا تھا کہ ’’سیکولرزم‘‘ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں روح کی طرح شامل ہے۔ ریاست کو تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اورکسی بھی ایک مذہب کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ مذہب انسان کی ذاتی زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کو اُس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ایک سچا سیکولراِسٹیٹ وہ ہے جوہر فرد کو اُس کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دے اور تمام مذاہب کا احترام کرے، تاکہ سبھی اہل مذاہب، محبت و الفت ،آپسی بھائی- چارہ اور اتحا دواتفاق کے ساتھ رہ سکیں۔ خواتین کے حقوق کی لڑائی بھی لڑی۔ اُن کاماننا تھا کہ خواتین کو کمزورجنس کہنا محض اُن کی توہین نہیں، بلکہ اُن کے ساتھ سخت ناانصافی بھی ہے۔ اِس کے ساتھ کمسنی میں شادی کی مذمت اوربیوہ کی دوبارہ شادی کی وکالت بھی کی، تاکہ خواتین بیوگی کے جہنم سے نکل کرسہاگن کی سیج پرایک خوشگوار زندگی بسر کرسکیں۔ مزید ملکی خوشحالی اور غربت کے خاتمے کے لیے پنچایت راج اور گاؤں-دیہات میں فیکٹریاں قائم کرنے پر زوردیا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی حقیقی روح اُس کے دیہات میں بستی ہے۔ ملک کی ترقی کا راستہ دیہی علاقوں کی خوشحالی سے ہو کر گزرتا ہے۔ جب تک دیہات کےعلاقوں کو ترقی نہیں دی جاتی اور دیہات کے لوگوں کی زندگی بہتر نہیں ہوتی اُس وقت تک ملک و سماج مجموعی طورپرترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے۔ بایں سبب اُنھوں نے مقامی صنعت، دستکاری اور کھادی کپڑوں کے استعمال کرنے کی بخوبی ترغیب دی۔ اُن کا واضح پیغام تھا کہ ملک سے اگر غربت کا خاتمہ کرنا ہے تواِس کے لیے لازم ہے کہ ملک میں دولت کی تقسیم منصفانہ طرزپر کی جائے۔ محض شہروں اورچند ہاتھوں میں ملکی سرمایہ رہے اور گاؤں اور دیہات تک نہ پہنچے اِس کے وہ سخت خلاف تھے۔ کاشت کاری کے جدید طریقے اپنانے اورپیداواری صلاحیت بڑھانے پربھی بخوبی زور دیتے تھے۔ اُن کا ماننا تھا کہ کسانوں کو جدید زرعی معلومات، بیج اورکھاد فراہم کرکے ہی اُن کی زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ گویا گاندھی جی ایک ایسا ہندوستان چاہتے تھے، جس کے گاؤں خود کفیل، خوشحال اور ترقی یافتہ ہوں، اور جہاں غربت کا نام ونشان نہ ہو۔
اِس تناظر میں کہا جاسکتا ہےکہ پسماندہ طبقہ کو برابری کا حق، ہندو-مسلم اِتحاد واتفاق، مذہبی معاملات میں مداخلت سے گریز، ملکی مصنوعات کا استعمال، دولت کی منصفانہ تقسیم، کاشتکاری اور پیداواری صلاحیت کا فروغ وغیرہ گاندھی جی کی اولین ترجیحات میں شامل تھیں، چناں چہ ملکی وسماجی ہردوسطحوں پراُنھوں نے اِس طرف لوگوں کی خاص توجہ مبذول کرائی۔ لیکن اِس کے برعکس آج آزادی کی سات دہائی گزرجانے کے بعد بھی گاندھی جی کے یہ نظریات وتعلیمات زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کیوں کہ آج بھی پسماندہ طبقہ جوں کا توں کسمپرسی، بدحالی اور بھید-بھاؤ کے اذیت ناک کرب سے گزرہا ہے۔ اُس کے لیے نہ تو معقول قیام گاہیں ہیں اور نہ ہی خوردونوش کی اشیا کا خاطر خواہ انتظام۔ جیسے-تیسے اُس کی زندگی بسر ہورہی ہے۔ جس مذہبی ہم آہنگی اور سیکولرزم پرگاندھی جی نے زوردیا تھا اورجسے جمہوریت کی روح قرار دیا تھا آج اُس مذہبی آہنگی اورسیکولرزم کا جنازہ اُٹھ چکا ہے۔ منظم طورپرآئے دن مذہبی مقامات کی بےحرمتی کی جارہی ہے۔ ریاست کے مکھیا جن پرتمام مذاہب کا احترام لازم ہے اوراُنھیں تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے وہ بذات خود ایک خاص مذہب کے خلاف پیروپگنڈہ کرتے نظرآرہے ہیں۔ بلکہ اپنی زبانی واقدامی ترشول سے اقلیتوں کی جان ومال کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جنھیں لا اینڈ آڈربحال رکھنا چاہیے آج اُنھیں سےلا اینڈ آڈر کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ ایک سیکولراِسٹیٹ جوہرفرد کے مذہب کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے لیکن آج وہی اسٹیٹ بالقصد ایک خاص مذہب کو نشانہ بنائے ہوا ہے۔ ایک طرف ایک ہی طرح کے جرم پرایک خاص مذہب سے منسلک افراد کے مکانات پربلڈوزرچلائے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف مجرم کو قانونی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ جس سرمایہ ارتکازکی مخالفت گاندھی جی نے کی تھی اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی وکالت کی تھی آج اُس نظریے کا وجود مرکز سے لے کر اِسٹیٹ تک کہیں نظرنہیں آرہا ہے۔ اس کے برخلاف ملکی سرمایہ، چند منتخب شہروں اورچند منتخب افراد کے ہاتھوں میں سمٹ آیا ہے۔ زراعت کو فروغ دینے اور پیداوار کو بڑھانے کے ذرائع تلاش کرنے کے بجائے اُسے مسدود کیا جارہا ہے۔ جوطاقت وقوت، کسانوں کے تحفظ اوراُن کے محنتانہ کی برآری پرصرف ہونی چاہیے وہ کسانوں پرشکنجہ کسنے اورسرمایہ دارں کو خوش رکھنے کے لیے اِستعمال کیا جارہا ہے۔ خواتین کے مسائل بھی منھ پھاڑے کھڑے ہیں۔ اسکولز ہوں، کالجز ہوں، یا پھر یونیورسٹیز ہوں، کہیں بھی خواتین کی عفت وعصمت محفوظ نہیں ہے۔ بلکہ بساط سیاست جہاں خواتین کے حقوق کی آوازیں بلند کی جاتی ہیں وہاں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف گاندھی جینتی کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسری طرف تشدد اورسچائی کو جھٹلانے کا چلن عام کررہے ہیں۔ بلکہ گاندھی جی کے سخت مخالفین کو پروموٹ کیا جارہا ہے اورعدم تشدد وصداقت اورسیکولرزم کے برخلاف تشدد وتعصب اورمذہبی جانبداری کوفروغ دیا جارہا ہے۔
بہرحال اگرآج پسماندہ طبقہ کو برابری کا درجہ نہیں مل رہا ہے، اُسے ایک ساتھ اُٹھنے-بیٹھنے نہیں دیا جارہا ہے اور اُسے منادر جانے سے روکا جارہا ہے۔ اگر ملک و اسٹیٹ سطح پر سیکولرزم اورمذاہب کو تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔ اگرمذہبی بنیاد پرکبھی ٹرین مسافرکو تو کبھی سبزی فروش کوٹارگیٹ کیا جارہا ہے، کہیں درگاہیں اُجاڑی جارہی ہیں تو کہیں مساجد پرحملہ کیا جارہا ہے اور کبھی بلڈوزرتوکبھی ماب لنچنگ کے ذریعے اقلیتوں کو ستایا جارہا ہے۔ اگر خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں۔ اگر شہری طرز پر گاؤں-دیہات کوترقی سے نہیں مربوط نہیں کیا جارہا ہے۔ اگرملک کا سرمایہ محض چند ہاتھوں میں ہے اور ملک سےغربت کے خاتمے پر فوکس نہیں کیا جارہا ہے، تو پھر کس بنیاد پر کہا جائے کہ آج گاندھی جی کے نظریات وتعلیمات کی کچھ اہمیت ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے