• منگل. اگست 19th, 2025

کھیلو اور جیتو کے نام پر جوا؟

Byhindustannewz.in

فروری 26, 2024

ڈاکٹر جہاں گیر حسن 

آج سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جہاں اچھے سے اچھے تجربات بھی ہوتے ہیں اور بُرے بُرے تجربات بھی۔ چناں چہ آج اِس کے ذریعے جائز طریقے پر تجارت و معیشت کے فروع سے لے کر ناجائز طور پر منافع کمانے کے تمام تر گُر سکھائے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے کئی دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے نامی گرامی شخصیات اِس میدان میں قدم رکھ چکے ہیں اور بڑے ہی منظم انداز میں "کھیلو اور جیتو” کا اشتہار کر رہے ہیں اور ہندوستانیوں کو مالا مال ہونے کی ترکیبیں بتا رہے ہیں۔ ویسے تو پہلے ہی سے  بہت سے فراڈی اور شاطر لوگ سوشل میڈیا پر سرگرم عمل ہیں اور مالدار ہونے کے لیے نت نئے حربے استعمال کررہے ہیں۔ بلکہ آج کل کے سوشل میڈیائی چور اس قدر تیز طرار ہو چکے ہیں کہ آنکھوں سے کاجل چرانے کے مصداق آئے دن لوگوں کے اکاؤنٹس سے پیسہ اڑاتے رہتے ہیں اور کرائم پرانچ والے بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ اس کے برعکس وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ کیوں کہ سوشل میڈیائی چوروں کی شاطرانہ چال کے آگے کرائم برانچ بھی بےبس نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات کرائم برانچ والے بھی بذات خود ان شاطروں کہ خدمات لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ان تمام باتوں سے صرف نظر اس سلسلے میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ سچن تنڈولکر، وراٹ کوہلی، کپل شرما وغیرہ جیسے مقبول اسٹارز بھی اگر "کھیلو اور جیتو” کا اشتہار کریں گے اور مالا مال ہونے کی ترکیبیں بتائیں گے تو ہمارے نوجوانوں کے فیوچر کا کیا ہوگا۔ آج جن نوجوانوں کو تعلیم و تعلم اور تہذیب و ثقافت اور ملک و معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا سبق دینا چاہیے انھیں "کھیلو اور جیتو” کے پردے میں جوا بازی کی طرف ڈھکیلنا  ملک و معاشرے کے لیے ہرگز نیک شگون ثابت نہیں ہوسکتا۔ مزید اس وقت تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب رویش کمار جیسے خوش فکر اور قابل رشک اسٹار بھی اس سلسلے میں اشتہار کرتے نظر آئے کہ "کھیلو اور جیتو” کے باعث ایک ڈرائیور منٹوں میں کروڑپتی بن گیا۔ 

اب اس "کھیلو اور جیتو” کی حقیقت کیا ہے، اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا بڑا مشکل ہے۔ پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ سچن تندولکر، وراٹ کوہلی اور کپل شرما جیسوں کو "کھیلو اور جیتو” کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ تو بذات خود کروڑپتی ہیں اور لاکھوں لاکھ چیریٹی کے طور پر عطیہ کرتے رہتے ہیں۔ پھر انھیں یہ گیم کھیلنے اور پیسہ جیتنے کی ضرورت کیوں آن پڑی، یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ لیکن اگر یہ واقعی سچ ہے اور اس کے اشتہار کی ذمہ داری مذکورہ اسٹارز نے اپنے سر لے رکھی ہے تو یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بہت برا ہے اور انھیں جوا باز بنانے کی طرف ایک منظم قدم ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ایسے گیم پلان کی تشہیر کی جگہ اس پر بندش کی مانگ کی جائے اور ہندوستان کی نئی نسلوں کو تعلیم و تعلم، اخلاق و کردار اور ملک و معاشرے کے حق میں کچھ بہتر کرنے کی رغبت دی جائے اور تجارت و روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے سلسلے میں انھیں تحریک دی جائے تاکہ ہمارے جوان بذات خود خوشحال ہوں اور ان کے ذریعے ملک و معاشرے کے افراد بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے