• منگل. اگست 19th, 2025

تجویزات وامتیازات سے ملک خوشحال نہیں ہوگا!

Byhindustannewz.in

فروری 26, 2024


ڈاکٹر جہاں گیر حسن


ہند- قطر تعلقات سے مستقبل میں ہردوملک کی سیاست وسیاحت اور تجارت ومعیشت پر بلاشبہ گہرےاور اچھے اثرات مرتب ہوںگےاوراِس کے لیے ہم اپنے وزیراعظم کومبارکباد پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اِس دورے پر ابوظہبی میں ہمارے وزیراعظم نےایک شانداربھی خطاب کیاجسے تمام ہندوستانی اخبارات نے شہ سرخیوں کے طورپر شائع کیا۔ اُس خطاب کے کچھ اہم حصے یہ ہیں کہ’’آج دنیا کو ایسی حکومتوں کی ضرورت ہے جو صاف ستھر ی ہوں، بدعنوانی سے پاک ہوںاور ماحولیات سے متعلق مشکلات کے سلسلے میں سنجیدہ ہوں۔حکومتیں ایزآف لیونگ، ایز آف جسٹس، ایزآف موبلٹی، ایز آف انوویشن، ایزآف ڈوئنگ بزنس کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ حکومتیںاِس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ عوام الناس کی زندگیوں میں کم سے کم دخل انداز ہوںاور اپنے شہریوں کے سلسلے میں بہت ساری ذمہ داری کی پابند ہوں۔میں نے اپنے 23؍ سالہ دورِ حکومت میںہمیشہ ایسا ماحول بنانے پر فوکس کیا جو شہریوں کو توانائی بخشے۔ ‘‘وزیراعظم کی یہ تمام باتیں بہرصورت تقاضائے زمانہ کے عین مطابق ہیں اور لائق صد ستائش ہیں کہ اِن پرعمل درآمدگی سےصرف مملکت وحکومت مضبوط ومستحکم نہیں ہوگی بلکہ اُس کے ساتھ اَمن وآشتی اور اُخوت ومروت کو فروغ حاصل ہوگا اور ملکی و معاشرتی ترقیات کے بہترین مواقع میسر ہوںگے۔ لیکن سوال یہ ہےکہ جس نوع کی تجویزات ہمارےوَزیراَعظم نے پیش کی ہیںکیا اُن کاتصورونفاذ ہمارے ملک ومعاشرے میںہے؟ یہ دیکھنا اِنتہائی اہم ہے، اور یہ سوال اُٹھنااِس لیے لازمی ہےکہ آج جب ہمارے کسان اپنےحقوق کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہے ہیںتواُنھیں سننے کے بجائے اُن کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کیاجارہا ہے۔رَبرکی گولیوںاور لوہے کے چھروں سےبالقصداُنھیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اُن پر ہزاروں کی تعداد میں آنسو گیس اورگولے داغے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ اُنھیں رُوکنے کے لیے ستر-ستر میٹر تک سیمنٹ مسالہ کی مدد سے عام شاہراہوںپرنوکیلی کیلیںگاڑدی گئی ہیں،تاکہ کسان لوگ وزیراعظم تک پہنچ نہ سکیں۔ جب کہ آج سے ایک دہائی پہلے کسانوں کے حقوق کے تحفظ کی قسمیں کھاتے نظر آتے تھے اورکسانوں کے تمام اخراجات کے ساتھ پچاس فیصد اضافی منافع دینے کی وکالت کیا کرتے تھے ہمارے وزیراعظم۔لیکن آج اُن کے پاس کسانوں سے ملنے کے لیے وقت نہیں ہے؟
اور اِسی پر بس ہو،توبھی غنیمت ہے،لیکن آج تو ہر معاملے میں ہندو-مسلم کے نام پر فرقہ پرستی کی آگ لگائی جارہی ہے۔ ایک خاتون رپورٹر جو پانچ سال تک مختلف نیوزچینلوں میں کام کرتی رہیں ،وہ بتاتی ہیں کہ جب قتل کی واردات ہوتی ہے تو سب سے پہلے رپورٹروں سے یہ پوچھاجاتا ہےکہ ملزم مسلمان ہے کیا؟خاتون رپورٹر کے بقول: ایکبار وہ لائیو رپورٹنگ کررہی تھی۔دہلی میںایک لڑکی کا قتل ہوا تھا جس کے پانچ ملزمین میںسےایک مسلم تھا اور چار ہندو تھے۔ نیوزنشر کے درمیان اِشتہاری وقفہ ہوا تو اِینکر نے اُس سےپوچھا کہ جو مسلمان ہے وہی کلیدی ملزم ہوگا؟ خاتون نے کہا کہ کلیدی ملزم پانچوںکے پانچوں ہیں، بلکہ قتل میں ہندوؤں کا رول زیادہ ہے۔ اِس پراِینکربولا کہ لیکن مسلمان ہے نا اُن میں سے ایک ؟اُس نے کہا کہ ہاں!اور پھر اَگلے ہی پل یہ اِسٹیٹمنٹ آتا ہے کہ ’’کلیدی ملزم فلاں خان‘‘ ہے۔
آج مندر-مسجد معاملات اپنے شباب پر ہیں اور اُس کےاچھے- بُرے اثرات ملک ومعاشرے پر کس قدر پڑ رہے ہیں، اُن سے ہرتعلیم یافتہ سنجیدہ افراد بخوبی واقف ہیں۔ مندر-مسجدبننےاوربنانے سے کسی کو تکلیف ہےنہ کبھی ہوگی۔ لیکن جب مندر-مسجد کے نام پرعوام الناس کو تکلیفیں پہنچیںگی تو اُس وقت حال زار کی صدائیں بزبان احتجاج لازمی طورپر بلندہوں گی اور ’’ایز آف لائف‘‘ کاخواب شرمندۂ تعبیرہرگز نہ ہوسکےگا اگرکوئی دکھیاخاتون یہ کہتی نظر آئی کہ ’’اگر آپ بھگوان کا مندر بنائیںگےمسجد بنائیں گے غریب کا جھونپڑا توڑکے، تو اُس میں بھگوان کبھی نہیں بیٹھیںگے۔کسی غریب کا جھونپڑا توڑکے اُس میںبھگوان بٹھاؤگے؟ رام کے بھکت بنتے ہواَور رَام کے بھکتوں کو تکلیفیں دے رہے ہو۔وہ سرکار، سرکار نہیں ہے جو غریبوں کا گھر چھین لے اور بےسہاروں کاسہاراچھین لے۔ایک پتھر کےبھگوان کی اتنی عزت اور اِنسانوںکی اتنی ناقدری؟‘‘اِسی طور جس ملک میں ’’ایزآف جسٹس‘‘کو ترجیحات میں شمولیت کی بات جاتی ہے اُسی میں ڈاکٹر رِیتو سنگھ نامی ایک خاتون ٹیچرکو دِہلی یونیورسٹی سےمحض اِس لیےبرطرف کردیا جاتا ہے کہ وہ پسماندہ برادری سے آتی ہے اوروجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اُس خاتون کوٹیچنگ نہیں آتی ۔لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ جس دستخطی دستاویز کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا جاتا ہے عدالتی تفتیش کے بعد یہ راز کھلتا ہے کہ جن لڑکوں سےڈاکٹر موصوفہ کے خلاف دستخط لیاگیا ہے وہ لڑکےاُس کالج میں پڑھتے ہی نہیں جہاں مذکورہ ٹیچر پڑھاتی ہیں۔چناںچہ اِس سلسلے میں قانونی طورپر اِحتجاج ہوتا ہے تو جسٹس دینے کے بجائے احتجاجیوں کوغیرقانونی انداز میں بندی بنالیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں پچھلے کچھ برسوںسے ہمارے ملک ومعاشرےمیں اقلیتوں کاجینا مشکل اورمرنا آسان تر ہوگیا ہے۔ عدالتیں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کی نمائندگی کررہی ہیں۔ مڈل کلاس کے معمولی قرض خواہوںکے ساتھ کوئی رعایت و سہولت نہیں دی جاتی اوراُنھیں قیدوبند کی ناقابل برداشت صعوبتوں سے دوچارہونا پڑتاہے۔ اِس کے برعکس سرمایہ داروں کے غیرمعمولی قرضوںکو بھی آنِ واحد میں معاف کردیا جاتا ہے اور اُنھیںمزید قرضہ دینے کی سہولیات فراہم کرائی جاتی ہیں۔ اکثریتی افرادبڑے سے بڑا جرم کرلےتوبھی قانونی پنجہ اُن تک نہیں پہنچتالیکن اقلیتی افراد کو محض شکوک وشبہات کی بنیاد پر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اکثریتی افرادبالقصداقلیتوں کی ہتک عزت کرےتوبھی اُنھیں شاباشی دی جاتی ہے لیکن یہی عمل اگر اقلیتی افراد سے سرزدہوجائے تو اُنھیں کسی قیمت پر بھی بخشا نہیں جاتا۔
القصہ! ایک طرف ہمارے ملک ومعاشرےکےیہ احوال ہیں اور ایک طرف ابوظہبی میں دیے گئےہمارے وزیراعظم کے خطابی تجویزات۔ اِن دونوں کو سامنے رکھا جائے توایسالگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم یا تو اَندرون ملک کےاحوال سے ناواقف ہیںیا پھر وہ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیںکررہے ہیں۔ اِن میں سے جوکچھ بھی ہواُس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ بلکہ ہم توصرف یہ جانتے ہیں کہ اندرون ملک کے احوال سے ناواقفیت اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں، یہ دونوں نہ توملک ومعاشرہ کے حق میں مفید ہیں اور نہ ہی ہمارے وزیراعظم کے حق میں۔نیز اَیسے میںنہ صاف-ستھری حکومت وجود میں آسکتی ہے نہ بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔بلکہ اِس کے برعکس عوام ورعایا اپنی اصلی توانائی سے محروم ہوسکتی ہیں۔اِس لیے ہمارا ماننا ہےکہ ہمارے وزیراعظم نے جوخطابی تجویزات ابوظہبی میں پیش کی ہیںپہلے اُنھیںاپنے ملک و سماج میںحتمی طوپرنافذکریں۔ مذہبیات وذاتیات سے اوپر اُٹھیں۔آبروئے جمہوریت پارلیمنٹ کوزَبانی ہفوات وفواحش سے محفوظ رکھنے کے لیے معقول طریقہ اختیارکریں۔ذیلی عدالت سےلےکر عدالت عظمیٰ تک کا وقار بحال رکھیں۔ تجارت اوررُوزگارکے مواقع فراہم کرنےمیں یکسانیت اور صفافیت برتیں۔ دوست اوردُشمن کی معیت میں اِتحاد واتفاق کا عملی نمونہ پیش کریں۔ذاتی و جماعتی مفاد پر بہرحال ملکی وعوامی مفا دکو ترجیح دیں۔کیوں کہ ایساکرنےسے ہی ایزآف لیونگ، ایز آف جسٹس، ایزآف موبلٹی، ایز آف انوویشن، ایزآف ڈوئنگ بزنس وغیرہ کا نظریہ پروان چڑھے ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے