• منگل. اگست 19th, 2025

اہل دین کی آفتیں

Byhindustannewz.in

فروری 13, 2024

مفتی منیب الرحمٰن


ہم اخلاق اور اقدار وروایات کے عہد تنزل میں جی رہے ہیں، جدید الیکٹرانک وسوشل میڈیا نے اخلاقی زوال کے سفر کو تیز تر کردیا ہے، یہ اخلاقی اور نفسیاتی بیماری معاشرے کے تمام طبقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے، سوائے اُن خوش نصیب افرادکے جنھیںاللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور دینی تربیت نے اُن آفات سے بچا رکھا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ علما سے معاشرے کے اوسط معیار اخلاق سے بہتر کی توقع رکھتے ہیں اور یہ بجا ہے، لیکن اب یہ بھی تیزی سے زوال پذیر ہے۔
انسانی خوبیوں میں اُس کے خاندانی پس منظر، ماحول اور ذاتی محاسن کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے، حدیث پاک میں ہے:
’’لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، اُن میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں بہتر تھے، وہ اسلام سے مشرف ہونے کے بعد بھی دین کی سمجھ حاصل کرکے بہتر ثابت ہوئے۔‘‘(صحیح مسلم، حدیث: ۲۶۳۸)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہےکہ ماحول پس منظر، نسبی اور شخصی فضیلت انسان کے جوہر قابل کو مزید نکھارتی ہے، صحابۂ کرام اس کی روشن مثال ہیں۔
اس کی مثال میں تحدیث نعمت کے طورپر اپنی ذات سے دیتا ہوں، میرے والد صاحب کے چار بھائی تھے، گاؤں سے ہٹ کر اپنی آبائی زمین میں سب بھائی طویل عرصے تک مشترکہ خاندان کے طورپر رہتے رہے، پھر جب اولاد بڑی ہوگئی، سب تعلیم وروزگار کے سلسلے میں منتشر ہوگئے، تو سب بھائی آپس میں چچازاد اور بعض خالہ زاد بھی تھے، دوسری چچیاں بھی کسی نہ کسی خاندانی رشتے سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہم بچپن اور لڑکپن میں آپس میں کھیلتے بھی رہے، اسکول میں بھی ایک ساتھ تعلیم پائی، لیکن گالی کاکوئی تصور ہمارے خاندان میں نہیں تھا، کیوں کہ ہرگالی یا تہذیب سے گرے ہوئے لفظ کا نشانہ دوسرے سے پہلے خود بنتے۔ بعد میں مدرسے میں بطور اُستاذ یا کالج یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسرپڑھاتے ہوئے غصے میں زیادہ سے زیادہ زبان پر اُلّو یا گدھے کا لفظ آتا تھااور وہ بھی بہت نادر، نالائق یا بدتمیز کے الفاظ بھی ہمارے غصے کے اظہار کے لیے کافی تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور اشرافیہ کے لوگ ملک کے اعلی اداروں میں تعلیم پاتے ہیں، پھر اُن میں سے بعض آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ ہیں، ہمیں حیرت ہوتی ہےکہ اُن کی زبانوں پر تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ کیسے آجاتے ہیں، لازماً پس منظر میں کہیں نہ کہیں کوئی تربیتی اور تہذیبی نقص موجود ہے،اُسی کو جینیاتی ورثہ یا مینوفیکچرنگ فالٹ کہتے ہیں۔
یہ عنوان میں نے اس لیے قائم کیا کہ آج کل سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کی توہین، تمسخر واستہزا، طعن و تشنیع، عیب جوئی، غیبت، بدگمانی، بہتان تراشی اور کردار کُشی رائج الوقت فیشن بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے نکل گیا ہے، مخالفین کی صورتیں بھیانک حد تک بگاڑی جاتی ہیں، یہ ساری باتیں شریعت میں ممنوع ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ اب مذہبی تنظیموں سے وابستہ بعض جذباتی لوگ بھی کام کررہے ہیں اور اپنی دانست میں وہ اُسے دین کی خدمت سمجھتے ہوںگے اور ظاہر ہےکہ خدمت دین پر انسان اللہ تعالیٰ سے اجرکا امیدوار ہوتا ہے اور حرام پر اجر کی اُمید رکھنا بھی حرام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے گناہ کے ذریعے مال کمایا اور اُس سے صلہ رحمی کی یا صدقہ کیا یا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا(تو اُس پر ثواب کی توقع تو درکنار) اُسے جہنم میں ڈالا جائےگا۔‘‘(الترہیب والترغیب:۲۶۷۰)
علامہ شامی نے فتاویٰ ظہیریہ کے حوالے سے لکھا: ’’ایک شخص نے فقیر کو حرام مال دیا اور اُس پر اُس نے ثواب کی اُمید رکھی، تو کافر ہوجائےگا اور اگر فقیر کو بھی اُس کو بابت معلوم تھا(کہ یہ مالِ حرام ہے) اور اُس نے اُس کےلیے دعاکی اور دینے والے نے آمین کہا، تو دونوں کافر ہوجائیںگے۔‘‘ (ردالمحتار،جلد:۵،ص:۵۲۹)اُس فقہی رائے کو شدید ترین تنبیہ سمجھاجائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انسانی اثاثے سے انسانی تاریخ کا فقید المثال انقلاب برپا کیا، اس کے لیے سب سے پہلے افراد تیار کیے، اُن کے نفوس کا تزکیہ کیا، اُن کے قلوب واذہان کو رذائل سے پاک کیا، اُن میں جوہر اخلاص کوٹ کوٹ کربھرا، اُنھیں راہِ حق میں مشکلات کو برداشت کرنا سیکھایا، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کےسانچے میں ڈھل کر کُندن بن گئے۔ چشم فلک نے آج تک اتنا پاکیزہ انسانی معاشرہ نہیں دیکھا۔ اُن میں انانیت نام کو بھی نہ تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کے اخلاص، مساعی اور کارناموں میں برکتیں عطا فرمائیں اور اپنی غیبی نصرت سے نوازا۔
پُرجوش نوجوان یقیناً دینی تنظیمات اور تحریکات کا سرمایہ ہوتے ہیں،مگر جوش کو ہوش پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے، جنون کو خرد کے تابع ہونا چاہیے اور جذبات کو شریعت کی حدود کا پابند رکھنا چاہیے۔ اُن کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ اُن کو دیکھ کر لوگ دین کی طرف مائل ہوں، لبرل، مادر پدر آزاد، دین سے بیزاراوردیندار لوگوںکے رویوں میں فرق نمایاں نظر آنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کا نقال نہیں، بلکہ اپنے عہد اور مابعدکے ادوار کے لیے آئیڈیل اور رول ماڈل بننا چاہیے، بعض لوگ دوسروں کے غلط رویوں کو اپنی غلطیوں کےلیے جواز کے طورپر پیش کرتے ہیں، یہ شعار دینی تعلیمات کے برعکس ہے، احادیث مبارکہ میں ہے:
(۱) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مقلد محض (یعنی لکیر کے فقیر) نہ بنوکہ تم (دوسروں کی بداعمالیوں کو دیکھ کر اپنے لیے جواز پیدا کرو اور) کہو:اگر لوگ (ہم سے) اچھا برتاؤ کریںگے، تو ہم بھی اُن سے اچھا برتاؤ کریںگے اور اگروہ ہم پر زیادتی کریںگے، تو ہم بھی اُن پر زیادتی کریںگے، بلکہ اپنے آپ کو(خیرپر) جمائے رکھوکہ اگر لوگ تم سے اچھا برتاؤ کریں تو تم بھی اُن سے اچھا برتاؤ کرو اور اگر وہ زیادتی کریں تو تم (اس کے جواب میں کسی پر) زیادتی نہ کرو۔‘‘(ترمذی، حدیث:۲۰۰۷)
(۲) حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:اے عقبہ بن عامر! جو تجھ سے تعلق توڑے، تم اُس سے تعلق جوڑو اور جو(ضرورت کے موقع پر)تمھیں محروم رکھے، تم (اُس کی ضرورت کے موقع پر) اُسے دو اور جو تم پر زیادتی کرے، اُسے معاف کردو۔
(مسنداحمد، حدیث:۱۷۴۵۲)
اسلام کسی مجرد حقیقت یا تصوراتی ہیولے کا نام نہیں ہے، جس طرح انسان کی حقیقت حیوان ناطق یا حیوان عاقل کسی معین انسان کی صورت میں ڈھل کر نظرآتی ہے، اُسی طرح اسلام بھی مسلمان کی شخصیت اور سیرت و کردار کے سانچے میں ڈھل کر نظر آتا ہے۔ آج کل مسئلہ یہی ہے کہ ہم قرآن وسیرت کے مثالی مسلمان کا مقابلہ اپنی معاصر دنیا کے چلتے پھرتے انسانوں سے کرکے اپنی برتری جتاتے ہیں اور دنیا پر غلبہ پانے کا خواب دیکھتے ہیں، ایسی خوب صورت خواہشات اور حسین خوابوں کی تعبیرپانامشکل ہے، اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو اسلامی کردار میں ڈھالنا ہوگا، محض تاجدارکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن مبارک پر پتھر باندھنے یا حضرت عمر فاروق کے لباس کی بابت مسجد میں سوال اٹھائے جانے کے واقعات سنانے سے کام نہیں چلےگا، بلکہ اپنے کردار کو اُن مثالوں میں ڈھال کر معاشرے کو مثالی بنانا ہوگا، ہماری بدنصیبی ہے کہ آج ایسی مثالیں کمیاب، بلکہ کافی حد تک نایاب ہیں۔
علم کے فیضان اور روحانی اثرات وبرکات کی راہ میں نفس پرستی، عجب اور انانیت حائل ہوجاتی ہے، جب کہ علم، تواضع سکھاتا ہےاور تکبر،عجزوتواضع کی ضدہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج کل بعض علماپر عجب کا غلبہ ہوگیا ہے اور وہ اپنی اَنا کے خول میں بندہیں۔ ہم نے بچپن میں فارسی کی پہلی کتاب شیخ سعدی کی’’کریما‘‘ پڑھی تھی، اُس کی ابتدا میں یہ شعر تھا:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندان لعنت گرفتار کرد
ترجمہ: تکبر نے شیطان کو خوار کردیا اور تاقیامت معلون قرار پایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دین کا علم اس لیےحاصل کیا کہ علما پر فخرومباہات کرے یا نادان جاہلوں سے(بےمقصد) بحث کرے یا لوگوں کے رخ عقیدت کو اپنی جانب مائل کرے تو اللہ اُسے جہنم میں داخل فرمائےگا۔‘‘(ترمذی، حدیث:۲۶۵۴)
انانیت پر مبنی مناظرہ بازی نے دین کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا دعوت بالحکمت اورموعظہ حسنہ کے ذریعے پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جدال احسن یعنی مہذب ومدلل، بحث وتمحیص کو بھی آخری درجے میں رکھا ہے۔قرآن کریم میں بعض انبیائے کرام علیہم السلام کے مناظرے مذکور ہیں، لیکن وہ تہذیب کے دائرے میں تھے اور کہیں بھی انانیت کا شائبہ نظر نہیں آتا تھا، بلکہ مقصد یہ ہوتا کہ کسی طرح سے حق کا پیغام لوگوں کے دل ودماغ میں جاگزیں ہوجائے، آج کل کےمناظرے تو فریق مخالف کی اہانت اور اپنی تعلّی کا مظہر ہوتے ہیں، اس لیے فیضان وتاثیر نہ ہونے کے برابر ہے، دعوت بالحکمت اور موعظت حسنہ سے مراد یہ ہے کہ دین کی بات اس انداز میں کی جائے کہ مخاطب کے دل میں اُتر جائے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے، ترے دل میں مری بات
صحابۂ کرام میں بھی مسائل میں اختلاف ہوتا تھا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے درمیان موجود تھے، وہ ہرمسئلے میں آپ سے رجوع کرتے اور آپ کا ارشاد قول فیصل ہوتا، اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے ائمہ کرام میں بھی مسائل پر بحث ہوتی تھی، بحث کی نوبت اُس وقت آتی ہے جب کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آرا ہوں اور ہررائے کسی دلیل پر مبنی ہو، جس کی دلیل راجح اور قوی تر ہوتی، اُسے قبول کرلیتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک بن انس،امام محمد بن ادریس شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین ایسے جلیل القدر ائمہ کرام کی اپنے فقہی اقوال سے رجوع کی مثالیں کتب فقہ میں موجود ہیں، پہلے اُن کے سامنے ایک دلیل آئی اور کسی فقہی مسئلے میں ایک رائے قائم کی، پھر جب اُس سے راجح دلیل آئی تواَنانیت آڑے نہیں آئی اور پہلے قول سے رجوع کرلیا، پھر جب اُس سے بھی ارجح (راجح ترین) دلیل آئی تو اُسے اختیارکرلیا، اگر طرفین کی دلیلیں مساوی درجے کی ہوتیں تو بعض صورتوں میں وہ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے، لیکن کوئی کسی پر کم علمی یا حق سے انحراف کا فتویٰ نہیں لگاتا تھا، نیز باہمی احترام بھی برقراررہتا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے