ڈاکٹر جہاں گیر حسن
بقرعید کا عظیم مذہبی تہوار گزر گیا لیکن اَفسوس اِس بات کا رہا کہ ہمیشہ کی طرح امسال بھی یرقانی شرپسندوں نےگائے کے تحفظ کے نام پردرندگی پن کے مظاہرسے باز نہیں آئے اور مدھیہ پردیش، چھتیش گڑھ اور اُڑیسہ جیسی ریاستوں میں گاؤ کشی روکنےکے پردے میں انسان کشی کا بازار گرم رکھا گیا۔ یہ بات انسانی سمجھ سے بالا ترہے کہ جس طبقہ کے نزدیک جانوروں کی قربانی کو لے کر ’’جیو ہتھیا‘‘ کے پردے میں ملکی سطح پر ہنگامے اور شورشرابے کیے جاتے ہیں اُس طبقے کی طرف سے انسان کشی کی وارداتیں کس بنیاد پر اِنجام دی جاتی ہیں۔ کیا جس طبقے کے مذہب میں جانوروں کی قربانی (جیوہتھیا) گناہ سمجھاتا ہے اُس کے نزدیک انسان کشی کارِثواب ہے؟ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے کہ جس کے نزدیک جانوروں کی قربانی تو گناہ ہو اور اِنسان کشی کار ِثواب ہو۔ اگر کوئی طبقہ مذہب کے نام ایسا کرتا ہے تووہ دراصل مذہب کا دشمن ہے اور اِنسانیت کا قاتل ہے۔ اِس کے ساتھ ہمیشہ کی طرح یہ بھی دیکھنے سننے میں آیا کہ جس طرح بقرعید منانے والوں نے بڑے ذوق و شوق اور یادگاری طور پراپنا تہوار منایا اور قربانیاں کیں بعینہ اِس موقع پر جانوروں کی عام قربانی کو لے کر بڑے بڑے شگوفے بھی چھوڑے گئے کہ کسی جاندار کو مارنا گناہ ہے اِس لیے بقرعید کی مناسبت سے جو قربانیاں کی جاتی ہیں وہ مناسب نہیں وغیرہ۔ یہ اور بات ہے کہ بقرعید کے موقع پر قربان ہونے والے جانوروں سے ہمدردی جتانے والے ایک شخص سے ایک جرنلسٹ نے جب یہ پوچھا کہ ’’قربانی اگر آپ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے اور ’’جیو ہتھیا‘‘ میں شامل ہے تو چڑھاوےکے طورپرجن جانوروں کی بلی بہت سارے مندروں میں دی جاتی ہے اُس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں مندروں میں جانوروں کی بلی دینا ’’جیوہتھیا‘‘ نہیں ہے؟ اِس پر معترض مہاشے جواب دینے کی بجائے بغلیں جھانکنے لگا۔ قربانی کے بالمقابل اگربلی جیسے رسوم کی بات کی جائے تو ہندوستان میں بےشمار جانوروں کی بلی دی جاتی ہے اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ بلی دی جانے والے جانوروں سے مذہبی رسوم کی ادائیگی کے سوا کوئی سماجی یا ملکی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جانوروں کی بلی دینے کے بعد نہ تو اُن کا گوشت اِستعمال میں لایا جاتا ہے اور نہ ہی اُن کے چمڑے کسی مصرف میں لائے جاتے ہیں۔ بلکہ اُسے یا تو یوں ہی چھوڑدیا جاتا ہے یا پھر زیرزمین دفن کردیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قربانی کے گوشت، چمڑے اور ہڈیاں سبھی کسی نہ کسی نہج پر لائق استعمال ہوتے ہیں اور اُس کے ذریعےمعاشیات میں استحکام لایا جاتا ہے۔ چناں چہ ہمارا ماننا ہے کہ کسی بھی مذہبی معاملات پر فریق مخالف کی طرف سے اعتراض وارد کرنا محض تناؤ کو بڑھاوا دینا نہیں بلکہ اپنی حماقت و نادانی کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہے۔ اس لیے بالعموم پوری دنیا میں اور بالخصوص ہندوستانی سطح پر مذہبی معاملات پر معترض ہونے کی بجائے ہرفریق مخالف پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرے اور جہاں تک ممکن ہو مذہبی معاملات کے انعقاد میں باہمی تعاون پیش کرے۔ اگر بصورت دیگر اَیسا نہیں ہوسکتا تو کم سے کم اجباری طور پر اِتنا ضرور کیا جائے کہ مذہبی معاملات میں خاموشی اختیار کی جائے۔ بلکہ ایسے مواقع پر مذہبی تہواروں کو منفی انداز میں دیکھنے کی بجائے مثبت انداز میں دیکھنے کی کوشش کی جائے اور اُس سے حاصل ہونے والے ملکی وملی مفادات کو وَاضح کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اُس کے دو فائدے حاصل ہوں گے:
۱۔ ملکی وملی سطح پرآپسی اور مذہبی خیر سگالی کا ماحول پیدا ہوگا۔
۲۔ہر مذہب و ملت سے منسلک افراد مذہبی تہواروں سے حاصل ہونے والےمعاشی فوائد سے شاد کام ہوں گے۔
مثال کے طور پر بقرعید کے موقع پر ہونے والی قربانیوں سے جہاں ایک طرف اقلیت کے مذہبی حقوق کی ادائیگی ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف ملکی پیمانے پرمعاشی لحاظ سے بہت سارے لوگوں کو مضبوطی ملتی ہے۔ اِس سلسلے میں جرنلسٹ انل یادو کے مثبت اور کار آمد نظریے کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔وہ لکھتے ہیں: ’’جو لوگ بقرعیدکے موقع پر قربانی کی مخالفت کرتے ہیں وہ غریب اور کسان کے مخالف ہیں۔کیوں کہ بقرعید کا تہوار گاؤں کےاُن غریبوں اورکسانوں کے گھروں میں خو شحالی لاتا ہے جوجانوروں کی پرورش کرتے ہیں، یہ تہوار اُن لاکھوں افراد کی سال بھر کی آمدنی کا ذریعہ ہے جن کا پیشہ جانوروں کی پرورش کرنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق: بقرعید کا تہوار ہندوستانی معاشیات و اقتصادیات کے لیے بوسٹر ڈوز کا کام کرتا ہے، کیوں کہ یہ تہوار ہندوستان کی شعبۂ اقتصادیات میں راست طورپر ڈیڑھ لاکھ کروڑ کا اضافہ کرتا ہے۔ بقرعید کے موقع پر ہندوستان میں بکرا، بھیڑ اَور دوسرے جانوروں سمیت پانچ کروڑ سے بھی زیادہ جانوروں کی قربانی دی گئی اور یہ تمام جانور، گاؤں کے کسانوں کے ذریعے اوراُن افراد کے ذریعے فروخت کیے جائیں گے جوجانوروں کی پرورش کرکے اپنی روزی-روٹی کا سامان فراہم کرتے ہیں،اور جس میں غیر مسلموں کی طرف سے۸۰؍ فیصد سے زیادہ جانوروں کی فروخت ہوئی۔‘‘
گویا قربانی کے جانور پالنے سے لے کر اُس کے قربان ہونے تک لاکھوں انسان روزگار سے جڑے رہتے ہیں۔ اِس موقع پر چارہ کاروبار بھی اِنتہائی نفع بخش ہوتا ہے جس سے زمیندار بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں اور دکاندار بھی۔ جانوروں کی نگہداشت کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں جس کے سبب غریب اور متوسط طبقے کےلاتعداد اَفراد کومالی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جانوروں کے باندھنے کے لیےرسیوں، زَنجیروں اورچارہ کھلانے والے برتنوں کی خرید وفروخت اچھے پیمانے پرہوتی ہے اوراِس سے بہت سے پسماندہ لوگ اپنی معاشی حالت کو بہتر اورمفید بناتے ہیں۔ قربانی کے موقع پر ٹرانسپورٹ سے لےکرمنڈیوں تک ملازمین ومزدوراپنی روزی-روٹی کا انتظام کرتےہیں، مثلاً گاڑیوں میں جانور لادنے اور اُتارنے والے لوگ کسب معاش سے منسلک رہتے ہیں۔ نیزبقرعید پر قصابوں کی اُجرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو اِسی قربانی نظام کا ایک حصہ ہےاور اِس طرح اَربوں کا لین دین ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں قربانی کے کھال سے لیدرمارکیٹ اور کاروبار میں تیزی آتی ہےکہ نمک لگا نے والے، خشک کرنے والے، پھر یہ سب چمڑے کے کارخانوں میں لایا جاتا ہے۔ اگر قربانی کا عمل ختم ہو جائے تو لیدر اَنڈسٹری کی اچھی خاصی مصنوعات ملنے دشوار ہوجائیں۔ مزید برآں قربانی کے بعد آلائشوں کو اُٹھانے والوں کی معاشی حالت میں بھی بہتری آتی ہے، کیوں کہ جانوروں کی آنتیں وغیرہ بیچی جاتی ہیں اور اُس سے موم بتیاں ودیگر پراڈکٹس بنائی جاتی ہیں اور اُن کے ذریعے منافع حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو عیدالاضحی کے تہوار پر ہونے والی قربانیوں سے جہاں مذہبی حقوق کی ادائیگی ہوتی ہے وہیں ملکی وسماجی سطح پر بہت سارے معاشی مسائل حل ہوتے ہیں اور اِس کے باعث معاشیات واقتصادیات میں خاطرخواہ استحکام پیدا ہوتا ہے۔

